(دوسری وآخری قسط، گزشتہ سے پیوستہ)!!
ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کیاجارہا ہے، حقیقت میں وہ ’’محسنِ ملت اسلامیہ ‘‘تھے، وہ پورے عالم اسلام کے محسن تھے، پاکستان جب سے ایٹمی قوت بنا اُس وقت یہ اعزاز کسی اسلامی ملک کو نصیب نہیں ہوا تھا، … ایک اسلامی ملک (پاکستان) چاہے وہ کہنے کی حدتک ہی اسلامی ہے، کو یہ اعزاز جب حاصل ہوا عالم اسلام میں ایک نیا دم خم پیدا ہو گیا، اسلام خصوصاً پاکستان کے دشمن ایک خوف سے دوچار ہوگئے، … جو یہ کہتے تھے اسلامی سائنسدانوں نے سوائے باتیں کرنے کے آج تک کچھ نہیں کیا اُن کی سوچوں میں کیڑے پڑ گئے، ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھارت بڑا خوش تھا، اُس کا خیال تھاپاکستان نے شاید اِس پر کوئی ورکنگ نہیں کی ہوئی، یا پاکستان کچھ عالمی قوتوں کے دبائو میں آکر شاید فوری طورپر اس کا جواب نہ دے، سو پاکستان کو دبانے میں اب اُسے بڑی آسانی ہوگی، …یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کمال تھا اُنہوں نے بھارت کی اِن ناپاک سوچوں کو خاک میں ملانے کاپورا اہتمام کررکھا تھا، کچھ لوگوں کا خیال تھا پاکستان چونکہ اِس وقت امریکہ کی غلامی کے تاثر سے لبالب بھرا ہوا ہے ہوسکتا ہے امریکہ کے دبائو پر بھارت کی ایٹمی قوت کے جواب میں وہ خاموشی اختیار کرے، نواز شریف کو مالی و سیاسی اعتبار سے لاکھ بُرا بھلا ہم کہہ لیں، مگر اُن سے مضبوطی سے جُڑی ہوئی اِس حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے امریکی دبائو کے باوجود قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے فوری طورپر ایٹمی دھماکوں کا اُنہوں نے عملی مظاہرہ کردکھایا، ظاہر ہے اس معاملے میں اُس وقت کی عسکری قیادت کی حمایت بھی اُنہیں حاصل ہوگی، مگر حتمی فیصلہ نواز شریف نے ہی کرنا تھا، جس شخص (نواز شریف) کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا وہ قوت فیصلہ کی اہلیت سے مکمل طورپر محروم ہے پاکستان کو فوری طورپر ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کرکے اس تاثر کو کسی حدتک اُس نے زائل کردیا۔ یہ فیصلہ اگر وہ دیر سے کرتے اِس کے اثرات یقیناً اچھے نہ ہوتے، اب کچھ لوگ اگریہ کہتے یا سمجھتے ہیں نواز شریف کے سیاسی راستے میں بار بار جو رکاوٹیں آئی ہیںاُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اُنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا ’’جرم‘‘ کیا تھا تو اس تناظر میں یہ بات یا یہ مؤقف اتنا کمزور بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ایٹمی صلاحیت دکھانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی بدسلوکیوں کی انتہا کردی گئی تھی، یہاں تک کہ ٹی وی پر اُن سے معافی منگوائی گئی، اِس سے پہلے ایٹمی قوت کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو بدسلوکیاں ہوئیں، حتیٰ کہ اُن کی جان لے لی گئی، یہ داستان بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے، … اِس ملک میں ’’پورا سچ‘‘ لکھنے کی کسی کو اجازت یا جرأت ہوتی یہ انکشاف بھی کوئی کُھل کر تفصیل سے کردیتا پاکستان کے اتنے دشمن پاکستان سے باہر نہیں جتنے پاکستان کے اندر ہیں، ہمارا المیہ مگر یہ ہے ہم صرف بیرونی دشمنوں کو ہی للکار سکتے ہیں، میرے نزدیک ہروہ شخص پاکستان کا دشمن ہے اپنے اختیارات کا جس نے غلط استعمال کیا، … ڈاکٹر قدیر خان کے حوالے سے لکھے جانے والے اپنے گزشتہ کالم کے اختتام پر میں یہ عرض کررہا تھا ’’میری اُن سے پہلی ملاقات برادرم سعید الٰہی کی جانب سے اُن کے اعزاز میں دیئے گئے ایک عشائیے میں ہوئی تھی ‘‘ ، بطور کالم نویس میں نے اپنا تعارف اُن سے کروایا وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے، اُن دنوں میں نوائے وقت میں لکھتا تھا، وہ میرے بالکل ساتھ بیٹھے ہوئے مجھ سے بڑی بے تکلفی سے باتیں کررہے تھے، میں نے محسوس کیا اُن کا حافظہ بڑے کمال کا ہے، مجھ سے اُنہوں نے میرے محترم بھائی ملک کے نامور آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر عامر عزیز کا حال پوچھا، کہنے لگے ’’ اُن پر جب جنرل مشرف کے زمانے میں آزمائش آئی آپ نے اُن کی رہائی کے لیے بڑی جدوجہد کی تھی‘‘، میں نے عرض کیا ’’یہ میرا فرض تھا‘‘۔اُنہیں یہ بھی یاد تھا میں نے اُن کی رہائی کے بعد اُن کے اعزاز میں آواری ہوٹل میں جس بڑی تقریب کا اہتمام کیا تھا اُنہیں بھی بذریعہ مجید نظامی اُس میں شرکت کی دعوت دی تھی، جس میں وہ اِس لیے شریک نہیں ہوسکے تھے اُن دنوں وہ علیل تھے،… میں نے اِس موقع پر اُن کی بے تکلفی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک سوال اُن سے پوچھا کہ ’’سر نظامی صاحب کے آپ کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں، وہ آپ سے بہت محبت وعقیدت رکھتے ہیں، آپ کی سرگرمیوں کو اُن کے اخبار میں غیرمعمولی کوریج ملتی ہے، آپ نے کالم لکھنے کے لیے ایک نظریاتی اخبار کے بجائے جنگ کا انتخاب کیوں کیا ؟،… میں اُن سے اور طرح کے جواب کی توقع کررہا تھا، مگر میرے سوال کو اُنہوں نے یہ کہہ کر ہنسی مذاق میں ٹال دیا کہ ’’بھائی ہم نے ساری عمر جنگ کی اِسی لیے جنگ میں آگئے ‘‘ …جنگ نے اُنہیں پورا احترام دیا، اُن کا کالم ادارتی صفحے کے اُونچے مقام پر چھپتا تھا، … ہمارے سیاسی و اصلی حکمرانوں کے اپنے مسائل، اپنی سوچ ہے، پاکستان کے عوام نے مگر اُنہیں ٹوٹ کر چاہا، میں جب دسویں کلاس میں پہنچا میرے والد نے مجھ سے کہا ’’پُتر اتنی محنت کرنا کہ تمہارا داخلہ ڈاکٹر قدیر خان کالج میں ہو جائے‘‘…میں نے پوچھا ’’ابو جی ’’ڈاکٹر قدیر خان کالج‘‘ کون سا ہے؟‘‘… وہ بولے میں اُس کالج کی بات کررہا ہوں جہاں سے اُنہوں نے تعلیم حاصل کی‘‘…وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی بات کررہے تھے … الحمد للہ یہ اعزاز مجھے نصیب ہوا اور ایسا نصیب ہوا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بہت عزت کمائی، ایک تقریری مقابلے کے لیے ترکی بھی گیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی … میرا بس چلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قومی خدمات کے پیش نظر میں ’’گورنمنٹ کالج یونیورسٹی‘‘ کا نام تبدیل کرکے ’’قدیر خان یونیورسٹی‘‘رکھ دوں۔ پر ایسی یہاں بے قدری کا جو عالم ہے اُس کے پیش نظر میں تو یہ توقع بھی نہیں کررہا کسی ایک سڑک کو ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے منسوب کردیا جائے گا،… گو کہ صدر مملکت ، وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان میں سے کسی نے ’’محسن ملت اسلامیہ‘‘ کے جنازے میں شرکت نہیں کی، مگر اُنہیں جب ’’پورے سرکاری اعزاز‘‘ کے ساتھ دفنایا جارہا تھا مجھے احمد ندیم قاسمی مرحوم کا یہ شعر یاد آرہا تھا…
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
میں حیران ہوں اب جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی خطرہ یا خدشہ بھی موجود نہیں تو مذکورہ بالا اہم شخصیات اظہار تعزیت کے لیے کیوں ابھی تک مرحوم کے لواحقین کے پاس نہیں گئیں؟