یہ آج کی بات نہیں ہے ہم روز اول سے ایسا کرتے آ رہے ہیں۔ ہم وہ احسان فراموش لوگ ہیں جو اپنے محسنوں کو عبرت ناک مثال بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم بھی پھانسی گھاٹ پر پھندے کا رسہ کھینچنے والے تارا سنگھ ہیں جو اشارہ ملنے پر اپنی ڈیوٹی نبھاتا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ ہم نے جو کیا ویسا ہی ہم پہلے بھی قائداعظم ؒ، جناب لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کے ساتھ کر چکے ہیں اور ہمیشہ ایسا کرتے رہیں گے کیونکہ جب معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر سماجی برائیاں تیزی سے پنپنا شرو ع کر دیتی ہیں۔ حق اور باطل کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اقتدار اور زر کی ہوس آنکھوں پر ایسی پٹی باندھتی ہے کہ اشرافیہ کو ماسوائے حکومتی باگ ڈور اپنے کنٹرول میں رکھنے کے کچھ نظر نہیں آتا۔ یحییٰ خان، ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف وغیرہ کے حکمرانی ادوار اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ بھٹو شہید نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اسے عبرت ناک مثال بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر قدیر خان (مرحوم) نے ایٹمی ملک بنایا تو ان پر ہم نے ایٹمی ٹیکنالوجی چور کا لیبل لگا کر دنیا کے سامنے یوں پیش کیا کہ جیسے وہ ایک دہشت گرد ہے اور دنیا کے عالمی امن کو تباہ کرنے کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے کا مرتکب پایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے سرکاری ٹیلی ویژن پر ان سے اعتراف جرم کا اعلان کرایا گیا اور ان کو تادم مرگ نظر بند کر دیا گیا۔
رہی بات ان سے جھوٹے اعتراف جرم کرانے کی تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کس نے کہاں ٹرانسفر کی تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان صاحب کو تو محض قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ اسی لیے تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ نے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر عالمی ایٹمی ایجنسی کو ڈاکٹر قدیر تک رسائی دیں گے حقیقت تو یہ ہے کہ محترمہ کا یہ بیان ہی ان کی موت کی وجہ بنا تھا۔ ہم جو مرضی کر لیں تاریخ ان سیاستدانوں کو بھی کبھی معاف نہیں کرے گی جنہوں نے ڈاکٹر قدیر کو ناکردہ گناہ کا اعتراف جرم کرنے پر آمادہ کیا تھا کہ وہ نیوکلیئر ٹرانسفر کرنے کا الزام اپنے سر لے لیں اسی میں ملک و قوم اور آپ کی بقا ہے۔ دراصل ایک طرح سے یہ ان اشرافیہ کو بچانے کی پالیسی تھی جو اصل جرم کے مرتکب ہوئے تھے اور یوں حقیقی مجرموں کو پس پردہ کھڑا کر کے ڈاکٹر قدیر خان کو عالمی برادری اور پاکستانی قوم کا مجرم بنا دیاگیا اور ان پر آزادی کی نعمت تنگ کر دی گئی۔ اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی میں یہ شعر کہا تھا:
گزر تو گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
ان کے اس شعر کے پیرائے میں ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ کس قدر گھٹن اور مایوسی کا شکار ہو چکے تھے آج جو ان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ محسن پاکستان تھے بلاشبہ وہ محسن پاکستان تھے انہوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ قابل تحسین اور قابل داد ہیں۔ ان کو محسن پاکستان کا خطاب سرکاری ریاستی سطح پر دیا جانا چاہیے تھا مقدر حلقوں سے لے کر مانگتے تانگے کی حکومتیں کرنے والوں نے بھی ایسا کرنے کی کوئی سعی نہیں کی یہ تو اللہ بھلا کرے ایک معاصر میڈیا گروپ کا جنہوں نے اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر ان کو محسن پاکستان کا خطاب دیا تھا اور آج لوگ جوق در جوق ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس لقب سے پکار رہے ہیں ان کی زندگی میں تو کیا ہم نے ان کی موت پر بھی کوئی ایسا احسن اقدام نہیں اٹھایا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ ڈاکٹر قدیر خان صاحب کی گراں قدر خدمات ہمیشہ ہمارا اثاثہ رہیں گی۔ دراصل ہم شرمندہ نہ ہونے والی قوم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے جنازے میں مقتدر حلقوں، عساکر قوت ، حکومت اور اپوزیشن کے عدم شرکت اور بے حسی نے بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ کہ ہم اخلاقی پستی کی اس گھاٹی میں جا گرے ہیں جہاں سے اخلاقی اقدار کی واپسی کی اب کوئی امید باتی نہیں رہی ہے کوئی تو ہو جو اقتدار کی غلام گردشوں میں دفن اپنے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑ کر امید کی کوئی کرن پیدا کر سکے کیونکہ زندہ رہنے کے لیے امید ضروری ہے۔