سب اچھا نہیں ہے اور ایک صفحے پر ہونے والا بیانیہ بھی دم توڑ گیا۔ حکومت کے نیچے سے قالین کھینچنے کی تیاری بھی ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف میں ایک عرصہ سے ہلچل موجود ہے اسے گروپ بندی کہا جائے یا کچھ اور مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے مشکل دن شروع ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں اور حکومت کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے کہ وہ عوام کو یہ بتا سکے کہ حکومت نے اس کے لیے کیا کیا ہے سوائے طفل تسلیوں کے۔ منہگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ڈالر کو آزاد کرنے کی پالیسی کا نتیجہ بھی سامنے آنا شروع ہو چکا ہے۔ صرف ڈالر نہیں ہر چیز کو پر لگ گئے ہیں۔ ویسے خوشی کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ احساس ہوا ہے کہ "وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور اس دفتر کی بھی کوئی عزت ہے"۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر سول اور فوجی بیوروکریسی کی خبریں جب سامنے آنا شروع ہوئیں تو حکومت نے پہلے پہل اس کی تردید کرنے کی کوشش کی مگر بعد ازاں پریس کانفرنس کر کے اس کو تسلیم کر لیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان کی منشا شامل نہیں تھی۔ حکومتی ترجمانوں کے مطابق اب تین سے پانچ نام وزیراعظم کی منظوری کے لیے بھیجے جائیں گے اور وزیراعظم عمران خان ان ناموں میں سے کسی ایک کی منظوری دیں گے۔ جس وقت حکومتی ترجمان اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے اسی روز چیف آف آرمی اسٹاف گجرانوالہ میں چینی ساختہ ٹینکوں کی پاکستان فوج میں شمولیت کی تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی مغربی سرحد پر بے یقینی کی فضا موجود ہے ایسے میں سول اور فوجی قیادت میں اختلافات کی خبریں عام لوگوں میں بے چینی کا سبب بن رہی ہیں۔
بات کا بتنگڑ بنانے والے کئی اور معاملات کی نشاندھی بھی کر رہے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اور کوئی اسے اپوزیشن کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے۔ جو سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں وہ
بڑے وثوق سے کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ ایک صاحب آئے کہنے لگے کہ عمران خان کو تین سال دیے گئے تھے انہوں نے کارکردگی نہیں دکھائی اب وہ زیادہ دیر سنگھاسن پر براجمان نہیں رہ سکتے۔ میں نے عرض کی کہ تبدیلی کس طرح آئے گی کہنے لگے کہ عجیب سوال کر رہے ہو مجھے لگتا ہے کہ تمہارے سیاسی کالم کوئی اور لکھتا ہے۔میں نے کہا کہ میری لاعلمی پر پھبتی کسنے کی بجائے اپنی بات کی وضاحت کریں تاکہ معاملہ سمجھ میں آئے۔ انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا کہ اتنی کم اکثریت کے ساتھ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنانے والے اتارنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ہر چیز تھالی میں سجا کر پیش کر دی گئی اور آپ پھر بھی آنکھیں دکھائیں تو کوئی بھی اسے برداشت نہیں کرتا۔ میں نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔
پاکستان میں سول بالادستی کی کہانی بہت خوفناک ہے۔ عمران خان کے ساتھ موجود ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو سمجھائیں کہ سول بالادستی کی بات کو ایک خواب سمجھ کر بھول جائیں۔ اس کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے۔ عوام کی تائید حاصل کرنا پڑتی ہے اور عوام کا موڈ ابھی باہر نکلنے کا نہیں ہے۔ نواز شریف بھی اس ملک میں انقلاب لانے چلا تھا اور آج دربدر ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ خود عمران خان کے ارد گرد جو لوگ موجود ہیں ان کے چہروں پر اڑنے والی ہوائیاں سب دیکھ رہے ہیں۔ ڈال ڈال پر بیٹھنے والے پرندے اڑان بھرنے کے لیے تیار ہیں۔ بس اس سے بہتر چمن دکھائی تو دے۔
یہ بات معمولی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ سب کچھ سامنے نہ آتا۔ اگر وزیراعظم دوبارہ سے اسی نام کی منظوری دے دیتے ہیں تو بھی شیشے میں آنے والے بال کو نہیں نکالا جا سکے گا اور کسی اور نام کی منظوری ہوتی ہے تو انا ٹکرائے گی۔ وزیراعظم کی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو میں خاص طور پر اس بات کو سامنے لایا گیا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ قومی مفاد کے حوالے سے ان کی کوئی انا نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے چیف وہپ کی میڈیا بریفنگ نے بہت سی قیاس آرائیوں کو جنم دے دیا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی دوبارہ تقرری پر بھی حکومت نے ثابت کیا تھا کہ وہ معاملات کو صحیح ڈھنگ سے چلانے کے ہنر سے واقف نہیں ہے۔ حکومتی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم جنرل فیض حمید کو مزید چھ ماہ تک آئی ایس آئی کا سربراہ رکھنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں کوئی دوسرا ڈی جی آئے گا تو کیا حکومت اس کے ساتھ مطابقت کر پائے گی یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم، افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کی رائے تھی کہ حکومت تمام اداروں کو آن بورڈ لینا چاہتی ہے، ’وزیر اعظم کی باڈی لینگویج کافی مثبت ہے اور وہ پر اعتماد لگ رہے ہیں‘۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وزیر اعظم نے کابینہ کو بتایا ہے کہ وہ ایک منتخب وزیر اعظم اور ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے مطابق انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے تقرر کے معاملے پر وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر پر مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور نئے تقرر کا عمل شروع ہو چکا ہے‘۔
اس وقت ٹوئٹر کو ایک ٹرینڈ چل رہا ہے جس کا ہیش ٹیگ ہے قوم حکومت ریاست ایک ساتھ۔ اس ٹیگ میں بحث کرنے والوں کی اکثریت عمران خان اور جنرل باجوہ کی ایک ساتھ تصاویر کو شئیر کر رہی ہے اور اختلافات کی خبروں کو دشمن کا پروپیگنڈا قرار دے رہی ہے۔ ان سے صرف اتنا سوال پوچھا جانا چاہیے کہ اختلافات کی ان خبروں کو حقیقت کا روپ کس نے دیا ہے۔ کیا آئی ایس پی آر کی جانب سے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرری کے اعلان کے بعد حکومت کو یاد آیا کہ اس سے مشاورت بھی ضروری ہے۔
اس سارے منظر نامے کا انجام کچھ بھی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی صفحہ کو ہونے کا بیانیہ ختم ہوا۔