سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے جس بحران نے اس وقت ہمارے مقتدر حلقوں اور خود کو منتخب کہلانے والی حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کے بارے میں چند ایسے حقائق قوم کے سامنے آئے ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ۔
1۔ نوازشریف کے دامن سے یہ دھبہ دھل گیا گیا ہے اس کی بطور وزیراعظم کسی آرمی چیف سے بن نہ پائی نتیجہ کے طور پر دو اڑھائی سال کے بعد اس کی حکومت کا بوریا بستر گول کر کے رکھ دیا جاتا… جمہوری عمل کو سخت دھچکا پہنچتا، کچھ لوگوں کی نگاہ میں میاں صاحب مردِ بحران بن کر اٹھتے رہے … ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا… اگلی مدت کے لیے وزیراعظم منتخب ہو جاتے مگر معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات! جبکہ بعض کے نزدیک ہمیشہ بم کو لات مار دیتے اپنے تئیں طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے، ان کے رویے اور طرزِ عمل کی وجہ سے بار بار فوجی آمریتوں کے دروازے کھلتے رہے۔
2۔ لیکن عمران خان بہادر کے بارے میں زیادہ دیر نہیں یوں کہہ لیجئے کہ 2، 3 ہفتے پہلے تک یہ تاثر پختہ ہو چکا تھا بلکہ یہ فقرہ ہر خاص و عام کی زبان پر رواں تھا کہ موصوف کی وقت کے آرمی چیف کے ساتھ گاڑھی چھنتی ہے ’’ایک پیج‘‘ اِن کی حکومت کا طرئہ امتیاز ہے… اسی کی بدولت تمام تر خامیاں بلکہ 5 سالہ آئینی مدت کے پہلے تین سال کے دوران ہی تقریباً ہر شعبے میں ناکامیوں کے باوجود ان کے سر پر پاکستانی اقتدار کے خمار کا سایہ موجود ہونے کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں لہٰذا کھلاڑی جمع سیاستدان کی حکومت خواہ کتنی ناتجربہ کار سہی اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
3۔ خطرہ شاید اب بھی نہ ہو اس کا بھی امکان ہے کہ حکومت وقتی طور پر اتنے بڑے بحران سے نکل آئے لیکن جانبین کے دلوں پر جو گرہیں لگ گئی ہیں وہ آسانی سے کھلنے والی نہیں… یہ بحران ہمارے حقیقی Power Structure اور اس کے ساتھ سول والوں کے تعلقات پر گہرے مثبت و منفی اثرات چھوڑ جائے گا۔
4۔ ایک حقیقت بار بار ہر بحران کے نتیجے میں سامنے آتی ہے مگر اس سے عملاً کوئی سبق نہیں سیکھتا… وہ یہ ہے کہ نیم جمہوری اور نیم آمرانہ نظام خواہ کسی روپ میں اختیار کیا جائے ہمیشہ ناکام رہا ہے… اس نے ملک کی جیسی بھی گاڑی چل رہی تھی اسے مزید پیچھے کی طرف پھینکا ہے… یہ بھی ایک سبب ہے جس کی بنیاد پر ہم ہمیشہ غیروں کی امداد اور قرضوں کے محتاج رہے ہیں… آج ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ یہ امریکہ جیسا طاقتور اور بارسوخ ملک اور اپنے مفادات کی خاطر ہمیں سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والی سلطنت منہ موڑ چکی ہے کیونکہ اسے ہمارے ہر موقع پر کرائے کے عوض خدمات پیش کرنے والے مقتدر طبقات اور فوج کی زیادہ ضرورت نہیں رہی… اس وقت تو وہ ہمارے زعمائے قوم کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں اسی کے زیرسایہ آئی ایم ایف کے ترلے کر رہے ہیں… ہم سخت ترین شرائط ماننے پر مجبور ہو چکے ہیں… ورلڈ بینک ہماری اقتصادی صورت حال کے بارے میں ایسے حقائق اور اعدادوشمار سامنے لا رہا ہے کہ حکمرانوں سے چھپائے چھپ نہیں رہے اسی پر اکتفا نہیں چین اور سعودی عرب جیسے ہر برے وقت میں کام آنے والے دوست بھی ہمارے بارے میں سخت بدمزگی کا شکار ہو چکے ہیں جس کے اظہار میں بھی اپنے اپنے طریق سے کمی نہیں رہنے دیتے۔
5۔ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل کے نام پر پنجہ آزمائی کرتا تھا… ریاستی طاقت کے مالک زورآور طبقات ہمیشہ اسے پچھاڑ ڈالتے تھے اب بھی نکال باہر پھینکا ہوا ہے مگر اس نے یہ روایت یقینا قائم کی ہے کہ ہار نہیں مانتا… اپنے الفاظ میں اصولوں کی جنگ لڑتا رہتا ہے… اسی کی بدولت ایک نہیں تین مرتبہ وزیراعظم بنا ہے… آج بھی اگرچہ جلاوطن ہو کر دیارِ غیر میں بیٹھا ہوا ہے… ملک کے اندر اس کی بیٹی، بھائی، بھتیجے اور تقریباً تمام قریبی سیاسی ساتھیوں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں… مدِمقابل جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ اور ظاہری مدد کے ساتھ اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی… اس کے باوجود وہ سول اور ملٹری دونوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے… موجودہ بحران نے بھی اس وقت جنم لیا جس اس کی بیٹی اور سیاسی جانشین مریم نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے اور والد کو ایون فیلڈ کے مقدمات میں دی جانے والی سزا کے خلاف رٹ دائر کرتے وقت یہ شواہد پیش کیے کہ کس طرح ججوں پر دبائو ڈال کر اور مرضی کے بنچ بنوا کر نوازشریف کی برطرفی پر مریم سمیت اس کے خلاف سزائوں کے فیصلے حاصل کیے گئے۔ ڈائریکٹر جنرل ’آئی ایس آئی‘ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس کام کے سرغنہ تھے۔ فوراً بعد اس موضوع پر مریم نے دھواں دار پریس کانفرنس کر کے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا… یہ الزام اتنی مضبوط بنیادوں پر لگائے گئے تھے کہ طاقتور حلقوں نہ ایوانِ وزیراعظم کی جانب سے کسی کو ابھی تک تردید کی ہمت نہ ہوئی البتہ چند گھنٹوں کے اندر کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں بڑے بڑے جرنیلوں کی نئی تبدیلیوں اور تعیناتیوں کا اعلان ہوا ان میں جنرل فیض حمید کو ڈائریکٹر جنرل ’آئی ایس آئی‘ کے منصب سے تبدیل کر کے کور کمانڈر پشاور مقرر کر دیا گیا… بظاہر اسے معمول کی تبدیلی بتایا گیا مگر وقت کی سب سے بڑی اور تہلکہ مچا دینے والی خبر ثابت ہوئی ہر خاص و عام کی رائے تھی کہ مریم نواز کی جانب سے جنرل فیض حمید کے کردار پر پیش کیے جانے والے ناقابل تردید شواہد نے انہیں متنازع ترین بنا دیا ہے اور یہ امر ان کے طاقتور اور نہایت درجہ بااثر عہدے کو لے بیٹھا ہے…
6۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی کیریئر کی سب سے زیادہ تشویش لاحق ہوئی… ایک تو مریم کے انکشافات نے ان کی منتخب حیثیت کا پول کھول کر رکھ دیا کہ کس طرح ان کے پیش رو نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے نتیجے میں آئین و جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے برطرف کیا تھا… دوسرے ان کو لانے والوں کا کردار بھی بے نقاب ہو گیا جس کی وجہ سے ان کا پائے چوبیں سخت بے نمکین ثابت ہوا ہے… چنانچہ موصوف نے جھرجھری لی اور جنرل فیض حمید کے تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے پر درون مے خانہ سخت تحفظات کا اظہار کر دیا… اتنی اہم اور حساس خبر تھی کہ فلٹر آئوٹ ہونے سے رک نہ پائی… ’’ایک پیج‘‘ کی سالمیت خطرے میں پڑ گئی… اخبارات اور ٹیلی ویژن پر کیونکہ پابندی عائد تھی مگر سوشل میڈیا پر نہ تھمنے والے ایک طوفان نے جنم لے لیا… حاضر سروس جرنیلوں کے غلبے والے Power Structure نے اسے عزت کا مسئلہ بنایا تھا کہ اس کے حکم کو پہلے تو اس طرح کسی نے نہیں ٹھکرایا تھا اب عمران جیسا مطیع اور فرمانبردار بظاہر اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکاری ہے۔
7۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی وزراء رفقاء میں یہ پریشانی پائی جاتی تھی کہ اگر جنرل فیض حمید ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ کے عہدے پر برقرار نہ رہے اور خاص طور پر ان کے نئے جانشین کے طور پر جنرل ندیم احمد انجم کا جو نام لیا جا رہا ہے تو مشکل وقت میں ان کا جائز و ناجائز ساتھ دینے اور ان کی خاطر پس پردہ سازشوں کے جال بچھانے والا کون ہو گا کیونکہ حکومت موصوف کی تین سالہ کارکردگی کا خانہ تو صفر ہے اگر اندر خانے غیرآئینی اور سازشی طور طریقوں کے ساتھ سہارا فراہم کرنے والے بھی باقی نہ رہے تو کون پرسانِ حال ہو گا… اس سلسلے میں بہت لے دے ہوئی آخرکار اپنے مشیر خاص عامر ڈوگر کے الفاظ میں عمران خان اس پر راضی ہو گئے کہ جنرل فیض حمید کو کم از کم چھ مہینے تک ان کے موجودہ عہدے پر فائز رہنے دیا جائے اس طرح کچھ تو ’’عزتِ سادات‘‘ باقی رہ جائے گی… اس دوران میں ان کے ذریعے پکی اوہر مستقل درجے کی سازشوں کا اہتمام کر دیا جائے…
8۔ جی ایچ کیو والے اس پر بھی راضی نہ ہوئے وہ اپنے حکم پر فوری عمل درآمد کرانے اور وزیراعظم ہائوس کے غیرمشروط طور پر نوٹیفکیشن جاری کرانے کی خاطر ڈٹے رہے… ریاستی طاقت ان کے پیچھے تھی اور آئین و جمہوریت عمران خان اس کا اس لئے اصولی اور اخلاقی ساتھ نہیں دے رہے تھے کہ موصوف کا وزیراعظم بننا ہی طاقت وروں کی مرضی اور خواہشات کا رہینِ منت تھا۔
9۔ یوں اپنی کشتی کو ڈوبتا دیکھ کر وزیراعظم کہے تین چار بااعتماد ترین وزراء جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک اور فواد چودھری کے نام نمایاں ہیں حرکت میں آئے… جی ایچ کیو میں حاضری دی… آرمی چیف سے درخواست گزار ہوئے… ایک مرتبہ عمران خان سے ملاقات کر لیجیے پھر آپ جیسے کہیں گے معاملہ حل ہو جائے گا… ملاقات کا اہتمام کرنے میں ڈیڑھ دو دن گزر گئے… بالآخر گزشتہ پیر اور منگل کی درمیانی رات خفیہ ملاقات ہوئی… اس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اعلان کیا اگرچہ نوٹیفکیشن جاری کرنا وزیراعظم کا قانونی استحقاق ہے تاہم جی ایچ کیو کی عزت پر کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا… تشریح اس کی یہ سامنے آئی کہ نوٹیفکیشن کو آئینی ضرورت کے تحت وزیراعظم ہائوس سے جاری ہو گا…اس کی خاطرجی ایچ کیو سے تین نام وزیراعظم ہائوس بھجوادیئے گئے ہیں جن میں سرفہرست کراچی کے کورکمانڈر جنرل ندیم انجم کا نام شامل ہے اس سلسلے میں کل حتمی اعلان کردیا جائے گا… جنرل فیض حمید کو تبدیل کر کے کور کمانڈر پشاور کے طور پر بھیج دیا جائے گا… یوں ’’ایک پیج‘‘ کا Myth باقی نہ رہا۔
10۔ نوازشریف نے کم از کم تین مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میںڈٹ گئے، ایک شرط نہ مانی اور وزیراعظم کے عہدے کی قربانی دے ڈالی… مگر ہمارے عمران بہادر تو ’’پہلی چوری پہلا پھاہ‘‘ کے مترادف لمّے پے گئے… بظاہر وزارت عظمیٰ بچا لی… لیکن جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا… جو گرہیں پڑنی تھیں پڑ گئیں… انہیں دانتوں سے کھولنا بھی آسان نہ ہوگا۔
11۔ نہلے پے دہلا ان کے سابق قریب ترین ساتھی اور مشیر جہانگیر ترین نے یہ کہہ کر مارا ہے کہ اگر ان کا ذاتی ہوائی جہاز حرکت میں نہ آتا اور صوبائی اسمبلی کو ورغلا کر وزیراعظم کے پاس نہ لاتا تو پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا قیام ممکن نہ ہوتا کیونکہ اکثریت حاصل نہیں ہو پا رہی تھی… دوسرے الفاظ میں عمران بہادر کی وفاقی حکومت جنرل فیض حمید اور ان کے Bossکے ناخنِ تدبیر کا کرشمہ ہے… تو پنجاب جیسے اہم ترین صوبے کی حکومت جہانگیر ترین کی بے پناہ دولت اور ہوائی جہاز کی بار بار کی اڑانوں کا شاخسانہ ہے… اگر یہی جمہوریت دو سال مزید رہی تو ملک کا اللہ حافظ ہے۔