لاہور: موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کی گرفتاری کے حوالے سے عابد کے والد اکبر ملہی اور والدہ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں مزید انکشافات کیے ہیں۔ اکبر ملہی نے بتایا کہ عابد گھر آیا تو بولا امی روٹی کھانی ہے کیونکہ چار دن سے بھوکا ہوں اور عابد کو پولیس کے حوالے کیا تو اس نے کہا کہ آپ نے مجھ سے دھوکہ کیا ہے۔
اکبر ملہی نے بتایا کہ عابد سے کہا تمہاری وجہ سے اس وقت بہو، بیٹیوں سمیت 30 لوگ پولیس حراست میں ہیں۔ بچوں اور رشتہ داروں کو چھڑانے کیلئے عابد کو پولیس کے حوالے کیا ہے۔
اکبر ملہی نے بتایا کہ اس میں صداقت نہیں ہے کہ پولیس نے عابد کو خود گرفتار کیا بلکہ عابد کو خالد بٹ کے ذریعے سی آئی اے پولیس کے حوالے کیا اور خالد بٹ اپنی گاڑی میں عابد کو تھانے چھوڑ کر آیا۔
موٹروے ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد کی والدہ نے بتایا کہ پولیس نے ہمارے جن افراد کو حراست میں رکھا انہیں اب چھوڑنا چاہیے۔
دوسری جانب اب سی آئی اے ماڈل ٹاؤن پولیس کاکہنا ہے کہ عابد کی گرفتاری کے لیے اس کے 7 رشتے داروں کو حراست میں لیا گیا تھا جنہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عابد کی فیملی کا اب کوئی فرد زیر حراست نہیں۔ مرکزی ملزم کی فیملی کی خواتین سمیت 7 افراد کو ایک ماہ سے پولیس نے حراست میں رکھا ہوا تھا اور ان کے موبائل فونز بھی پولیس کے قبضے میں تھے۔
عابد کے رشتے دار نے بتایا کہ قلعہ ستارشاہ میں جب پولیس گئی تھی عابد وہاں موجود تھا، عابد کی بیوی بھی پولیس کو دیکھ کر فرار ہوگئی تھی،عابد کی بیوی کو مانگا سے حراست میں لےلیا تھا، عابد کے والد نے اچھا کام کیا ہے اس نے بیٹا خود پولیس کے حوالے کیا ہے۔
خیال رہے کہ موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے آئی جی پنجاب انعام غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے ملزم کو بڑی محنت کے بعد سائنٹفک طریقہ کار سے گرفتار کیا لیکن گرفتار ملزم عابد ملہی کے والد کے بیان کے بعد مرکزی ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
موٹر وے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو دو روز قبل فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ عابد ملہی کو گرفتار کرنے کے لیے پہلے جال بچھایا گیا اور پھر اسے بڑے سائنٹفک طریقے سے گرفتار کیا گیا۔ آئی جی پنجاب انعام غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عابد ملہی مانگامنڈی میں والد سے ملنے آیا تو پولیس نے اسے دھر لیا۔
ایک ماہ سے پولیس کی گرفت سے بچ کر مختلف شہروں میں آزاد گھومنے والے ملزم کو گرفتار کرنے والی ٹیم کے لیے 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا گیا، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا کام ہی ملزمان کو پکڑنا ہے۔