اسلام آباد: ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ کویڈ 19 نے پاکستان میں تقریباً 160 ملین افراد پر منفی اثرات مرتب کئے، جس کے جواب میں حکومت پاکستان نے پریشانی میں مبتلا 15ملین خاندانوں کو کیش امداد فراہم کی۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی نے یہ بات آئی ایم ایف سالانہ اجلاس کے دوران بطور پینلسٹ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس تقریب میں سماجی تحفظ کے پروگراموں پر ریلیف اور طویل مدتی بحالی کیلئے سنگ بنیاد کے طور سے توجہ دی گئی۔
یہ ورچوئل تقریب سالانہ اجلاس کے مرکزی خیال میں براہ راست اہم کردار ادا کر رہی تھی جس کا مقصد لچک پیدا کرنا، شمولیت کو بہتر بنانا، معاشی نمو کو فروغ دینا، کاروبار اور ملازمتوں کو برقرار رکھنا تھا۔ اعلیٰ سطح کے پینل میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے علاوہ نیپال کے وزیراعظم کے خصوصی اقتصادی مشیر، بی آر اے سی بنگلا دیش کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر اور انڈین منسٹر برائے ٹیکسٹائل اور خواتین اور بچوں کی ترقی کے وزیر بھی شامل تھے۔
پالیسی سازوں، پریکٹیشنرز، سکالرز اور بین الاقوامی ماہرین کیساتھ گفتگو سے پینل نے جنوبی ایشیا کے خطے میں امدادی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر مشترکہ تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح سے تمام افراد تک رسائی، ان کی بحالی اور جامع طویل مدتی نمو کیلئے سماجی تحفظ کے پروگرام کو ڈیزائن کیا جاسکتا ہے۔
احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کی وسعت اور عزائم پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ احساس ایمرجنسی کیش کا غیر یقینی صورتحال کے دوران لاکھوں خاندانوں تک نقد مالی معاونت فراہم کرنا ایک اہم کارنامہ تھا۔ کویڈ 19 نے پاکستان میں تقریباً 160 ملین افراد پر منفی اثرات مرتب کئے۔ اس کے جواب میں حکومت پاکستان نے پریشانی میں مبتلا 15 ملین خاندانوں کو کیش امداد فراہم کی۔
گفتگو کے اختتام پر ڈاکٹر نشتر نے کہا کہ ادائیگیوں کے دوران بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لاک ڈائون کے بعد احساس ایمرجنسی کیش پروگرام چلایا گیا جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہو چکی تھی اور بیماری پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ لاجسٹکس، رابطے، لیکویڈیٹی، سائبر اٹیکس، بائیومیٹرک ناکامیاں اور ڈیٹا سے متعلق دیگر اضافی مسائل کا سامنا بھی تھا ۔ حکومتی اپروچ نے کامیابی کیساتھ ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ مشکل دور میں مزدوری کرنے والے افراد کو کام کرنے کی ترغیب دینے کیلئے مالی اقدامات اٹھائے گئے تھے ۔ کم مالی اور ڈیجیٹل خواندگی سے نمٹنے کیلئے مواصلات کے اقدامات اٹھائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کویڈ 19 بحران نے جنوبی ایشیا کو سخت متاثر کیا ، غربت بڑھی، عدم مساوات میں اضافہ ہوا ۔ جنوبی ایشیا کے پالیسی سازوں کیساتھ ساتھ پریکٹیشنرز، اسکالرز اور بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ یہ گفتگو بروقت اور ضروری تھی کیونکہ دنیا بھر کے ممالک معاشی بحالی کیلئے منصوبے تیار کررہے ہیں اور موجودہ اور مستقبل کے مسائل کیخلاف خاندانوں کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔