لاہور قلندرز کے پروگرام رائزنگ اسٹارز میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار بچوں نے حصہ لیا اور اپنا ٹیلنٹ دکھایا، ان میں سے ایک سو اٹھائیس منتخب ہوئے اور ایک ٹورنامنٹ کھیلا جسکے تمام میچز ٹی وی پر براہ راست نشر ہوئے ، اور ان میں سے منتخب ہوئی ایک سولہ رکنی ٹیم جو اس ماہ کے آخر میں آسٹریلیا جائے گی۔
ان سولہ منتخب کرکٹرز میں ایک سرگودھا سے تعلق رکھنے والا رکشہ ڈرائیور محمد نوید بھی ہے۔سرگودھا میں محمد نوید اپنے شہر میں ہونے والے ابتدائی ٹرائیلز میں سلیکٹ نہیں ہوا تھا، لیکن وہ ہمت نہیں ہارا ٹرائیلز دینے لیہ پہنچ گیا لیکن وہاں بھی منتخب نہ ہوا، بہاولپور میں بھی رائزنگ اسٹار کے ٹرائلز میں منتخب نہ ہوا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور فیصل آباد پہنچ گیا ، جہاں بل آخر اس کو موقع مل ہی گیا۔
پھر سرگودھا کی ٹیم کے کچھ کھلاڑی اوور ایج ہوئے تو اسکو سرگودھا کے اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا۔اس نے اپنی ٹیم کیلئے پرفارم کیا اور فائنل میں اننگز کا آغاز کرتے ہوئے میچ وننگ پرفارمنس کا بھی مظاہرہ کیا ،جس کی بنیاد پر اس رکشہ ڈرائیور کو سڈنی جانے کیلئے سلیکٹ کرلیا گیا۔محمد نوید کا کہنا ہے کہ لاہور قلندرز کے رائزنگ اسٹار پروگرام نے اسکے خواب پورے کردیئے ہیں۔
نوید کہتے ہیں کہ ان کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ کرکٹ کھیل کر ملک کا نام روشن کریں اور اب لاہور قلندرز نے ان کو زندگی کا سب سے بڑا موقع فراہم کیا ہے جس پر وہ کافی خوش ہیں۔محمد نوید کے مطابق وہ روزانہ چھ سے سات گھنٹے رکشہ چلاتا ہے جس کے بعد کرکٹ کی پریکٹس کرتا ہے ، اسکے بھا ئی مکینک ہیں لیکن اس نے کبھی حالات کی وجہ سے حوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔
لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکٹو آفسر عاطف رانا کا کہنا ہے کہ محمد نوید جیسے کرکٹرز کی سلیکشن سے ثابت ہوتا ہے کہ رائزنگ اسٹارز میں ہرکسی کو بغیر کسی تفریق کے موقع دیا گیا ،یہ نہیں دیکھا گیا کہ کون کہاں سے ہے، کس کا کیا بیک گراﺅنڈ ہے اور کس کی مالی حیثیت کیا ہے ،بس دیکھا گیا تو یہ کہ اس میں کتنا ٹیلنٹ ہے۔
محمد نوید کا سرگودھا کی سڑکوں سے سڈنی کے میدانوں تک جانے کے سفر میں یقینی طور پر لاہور قلندرز کا اہم کردار ہے۔ امید ہے کہ اس طرح کے پروگرام مستقبل میں اور بھی ٹیلنٹیڈ پلیئرز کو موقع فراہم کریں گے تاکہ کوئی کھلاڑی حالات کا شکار ہوکر کہیں گمنامیوں کے اندھیرے میں نہ کھو جائے۔