آن لائن: سویڈین کے محققین نے وائکنگز کے دور میں تدفین کے لیے استمال ہونے والے ایسے کپڑے دریافت کیے ہیں جن پر عربی کے حروف ’اللہ‘ اور ’علی‘ لکھے ہوئے ہیں۔نویں اور 10ویں صدی کے ان کپڑوں کو 100 سال سے زائد عرصے تک گودام میں رکھا گیا تاہم اس دریافت کے بعد اس خطے میں اسلام کے اثر و رسوخ کے حوالے سے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔
انیقہ لارسن کو ان فراموش کر دیے جانے والے کپڑوں کے باقیات میں دلچسپی تب پیدا ہوئی جب انہیں پتا چلا کہ یہ کپڑا وسط ایشیا، فارس (موجودہ ایران) اور چین سے آتا تھا۔انیقہ لارسن کے مطابق ایک چھوٹا سا ڈیزائن جو 1.5 سینٹی میٹر سے زیادہ بڑا نہیں وہ سکینڈینیویا میں کسی بھی چیز سے مماثلت نہیں رکھتا تھا۔
میں پہلے تو اس کو سمجھ نہیں سکی اور پھر مجھے یاد آیا کہ میں نے ایسے ہی ڈیزائن کہیں دیکھے تھے، شاید اسپین میں مورش ٹیکسٹائل پر۔لارسن 100 کپڑوں کے ٹکڑوں میں سے 10 میں ان ناموں کو دریافت کرچکی ہیں۔لارسن نے کہا کہ ’اس بات کے امکان کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں کچھ قبریں مسلمانوں کی ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی این اے کے تجزیے سے پہلے ہی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وائکنگز کی کچھ قبروں میں دفن افراد کا تعلق فارس سے تھا جہاں مذہب اسلام اکثریت میں تھا۔وائکنگ اور مسلم دنیا میں تعلق کئی تاریخی بیانات اور نصف کرہ شمالی میں اسلامی سکّوں کی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے۔
دو سال قبل برکا میں ایک خاتون کے مقبرے سے ملنے والی چاندی کی انگوٹھی کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ اس پر بھی ’واللہ‘ کے الفاظ پتھر کے اندر کندہ تھے۔اس میں بھی رسم الخط کوفی استعمال ہوا جو ساتویں صدی میں عراق کے علاقے کوفہ میں بنایا گیا۔یہ قرآن تحریر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اوّلین رسم الخطوط میں سے ایک ہے۔لارسن کی دریافت میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سکینڈینیویا میں پہلی بار کسی قدیم چیز پر علی لکھا دیکھا گیا ہے۔