اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے ہائیر رایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کو ہدایت دی ہے کہ نئی جامعات کے لئے این ۔او۔ سی کے اجرا پر پابندی عائد کر دی جائے۔ یہ ہدایت وزیر تعلیم نے ایک خط کے ذریعے جاری کی ہے۔ خط میں انہوں نے لکھا کہ معیار کے بغیر یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانا بے معنی اور بے سود ہے۔ ہمارے ہاں جامعات کے ناقص معیار تعلیم کا قضیہ اکثر زیر بحث آتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔بہت اچھا ہو اگر وزارت تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن جامعات کے معیار تعلیم کی اصلاح احوال کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں۔چند ماہ پہلے بھی ایسی ہی ایک خبر سننے کو ملی تھی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کے ایک اجلاس میں معیار تعلیم سے متعلق مختلف معاملات زیر بحث آئے۔ اراکین نے خاص طور پر سرکاری جامعات کے ناقص معیار تعلیم پر اظہار تشویش کیا تھا۔رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کا کہنا تھا کہ ہماری جامعات میں ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح تقسیم ہو رہی ہیں۔صوبہ بلوچستان میں معیار تعلیم کی گراوٹ کا احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان سے پی۔ ایچ۔ڈی کرنے والے بیشتر افراد کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک درخواست تک لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ اور دیگر اراکین نے بھی کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اجلاس میں جامعات میں ہونے والی مالی اور علمی کرپشن کی شکایات بھی زیر بحث آئیں۔ اس گفتگو کے تنا ظر میں وزیر تعلیم نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ مقدار کے بجائے معیار پر توجہ مبذول کی جائے گی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی معیار تعلیم کو بہتر بنانے کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے ڈگری یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر خوار نہ ہوتے پھریں۔لگتا ہے کہ چند دن پہلے وزیر تعلیم کی طرف سے ارسال ہونے والا خط بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پہلے بھی اپنے کالموں میں عرض کر چکی ہوں کہ ہمارے ہاں نئی جامعات قائم کرنے کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ کچھ حکومتیں محض پوائنٹ سکورنگ کیلئے کسی قائم شدہ کالج یا یونیورسٹی کے سب کیمپس پر یونیورسٹی کا بورڈ آویزاں کر کے نئی یونیورسٹی قائم کر نے کا دعویٰ کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد اس ادارے کو پلٹ کر بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے پاس فنڈ ز اور دیگر سہولیات ہیں بھی یا نہیں۔ 2021 میں جب پنجاب کی جامعات شدید مالی مشکلات کا شکار تھیں۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی وزیر اطلاعات فردوس عاشق نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت نے پنجاب میں21 جامعات کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ہی سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کا مسودہ قانون "پاک یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی بل" مسترد کر دیا تھا۔ کمیٹی کے اراکین کی دلیل یہ تھی کہ اس وقت ملک میں 141 جامعات موجود ہیں۔ ان میں 15 انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ پہلے سے قائم جامعات مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ لہذا کم وبیش پچاس ارب روپے کی لاگت سے ایک نئی جامعہ بنانے کے بجائے قائم شدہ جامعات کو مستحکم بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
معیار تعلیم کا معاملہ بھی ہمارے ہاں برس ہا برس سے زیر بحث ہے۔ سرکاری اور نجی جامعات میں ڈگریوں کی اندھا دھند تقسیم کے قصے بھی اکثر و بیشتر سنائی دیتے ہیں۔قائمہ کمیٹی کے رکن اسلم بھوتانی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اس لئے انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کے ناقص معیار تعلیم کا معاملہ کمیٹی اراکین کے سامنے رکھا تھا۔ سچ یہ ہے کہ دیگر صوبوں کے حالات بھی تھوڑے بہت فرق کیساتھ ایسے ہی ہیں۔ پنجاب میں بھی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے حوالے سے شکایات سامنے آتی رہتی ہیں ۔ چند برس پہلے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین نے گورنر پنجاب کو ایک خط لکھ کر یونیورسٹیوں کے ناقص معیار تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمیشن کے چیئرمین نے خط میں لکھا تھا کہ ان کے پاس نٹرویو کیلئے آنے والے ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کے حامل امیدوار انگریزی کے دو جملے بھی ٹھیک سے بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ امیدوار اپنے مضمون سے متعلق انتہائی بنیادی معلومات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ بیشتر امیدوار اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع تک بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ بہت سے طالب علم ایم ۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کے مقالہ جات قیمتا خریدتے اور ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ خط موصول ہونے کے بعد اس وقت کے گورنر رفیق رجوانہ نے پنجاب کی تمام جامعات کے وائس چانسلروں کو خط لکھ کر ہدایت کی تھی کہ وہ معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے اقدام کریں۔گورنرکے خط کے بعد کوئی عملی اقدامات دکھائی نہیں دئیے۔
بد قسمتی سے علمی بدعنوانیوں کے قصے بھی اکثر و بیشتر سننے میں آتے رہتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب تعلیم اور تحقیق کے ناقص معیار کی بازگشت پاکستان کے ایوان بالا میں سنائی دی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و فنی تربیت کے ایک اجلاس میں ہائیر ایجوکیشن کے حکام نے انکشاف کیا تھا کہ ملک کی بہترین قرار دی جانے والی جامعات کا معیار تعلیم گر رہا ہے۔ کئی جامعات نے معیار تعلیم سے متعلق ریکارڈ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو فراہم ہی نہیں کیا۔قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی کو ناقص تحقیقی مقالاجات کے حوالے سے بھی درجنوں شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ان شکایات کے بعد انہوں نے ملک کی پانچ نمایاں سرکاری جامعات کے ریسرچ جرنلز اور ان میں چھپنے والے تحقیقی مقالہ جات کو جانچنے کے لئے ایک تین رکنی سب کمیٹی قائم کی۔ تاہم ابھی تک کمیٹی کی رپورٹ سامنے نہیں آسکی۔ یعنی یہ قصہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل عالمی سطح پر بھی ہماری بہت جگ ہنسائی ہوئی ،جب انٹرنیشنل ویب سائٹ ری ٹریکشن واچ ڈیٹا بیس نے علمی بد عنوانیوں اور سرقے کی بنیاد پر لکھے پاکستانی پروفیسروں کے بیسیوں تحقیقی مضامین کی نشاندہی کی اور انہیں مسترد کر دیا۔ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن میں بھی ہمارے اساتذہ اور محققین کی اکیڈیمک کرپشن کے قصے چھپ چکے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ تعلیم اورتحقیق کے معیار کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اللہ کرے کہ وزیر تعلیم کا یہ فیصلہ چند روزہ نہ ہو ۔ اس حوالے سے عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں ڈاکٹر مختیار جیسا تجربہ کار سربراہ موجود ہے۔ وہ تعلیم سے جڑے معاملات اور مسائل کی بہت اچھی آگاہی رکھتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ اعلیٰ تعلیم اورعلمی تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے بروئے کار آئیں گے۔ نئی جامعات قائم نہ کرنے کا فیصلہ مستحسن ہے۔ تاہم لازم ہے کہ نئی جامعات کیلئے مختص بجٹ سڑکوں ِ ، پلوں وغیرہ کی تعمیر پر لگانے کے بجائے قائم شدہ جامعات کو ہی منتقل کیا جائے ۔