پاکستان2018کے انتخابات کے بعد سے پاکستانی سیاست اور معیشت مسلسل بے یقینی اور بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ عام آدمی کی زندگی جہاں مہنگائی، بےروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے، وہیں عوامی سطح پر مخالفت برائے مخالفت سے بھرپور سیاسی دھڑے بندیوں نے بھی قوم میں معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ہے۔ 2022ءکے آغاز سے ہی پاکستان شدید نوعیت کے اقتصادی ومعاشی بحران کا شکار ہے جبکہ نام نہادپاپولر سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لیے جنگ اور رسہ کشی دن بہ دن گھمبیر شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ سویلین بالادستی کی خواہش رکھنے والی جماعتیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مدد کے لیے سرگرداں ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ عوام دن بہ دن غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث مسائل کے دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔ اس سیاسی خلفشار، محاذ آرائی اور بیہودہ بیانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسے کثیر الجہتی بحران کی لپیٹ میں ہے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ حکمران طبقوں کو نہیں سوجھ رہی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراکر ملک کو ایک نئے بحران کے حوالے کرکے رخصت ہوجاتی ہے۔ ایسے میں غریب عوام جائیں تو کہاں جائیں،مہنگائی، افراط زر اور معاشی بحران کا زیادہ تر بوجھ مختلف ٹیکسز اور یوٹیلٹی بلز کی صورت میں آئے روز ہوشربا اضافوں کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔گزشتہ چار برس کے دوران روپے کی قدرنصف رہ گئی ہے۔ ایسے میں اجرت اورتنخواہوں میں اضافہ کم از کم 50 فیصد توہونا چاہیئے تھا جس کی طرف کسی کی کم ہی توجہ ہے۔ لمحہ موجود میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی بحران ہے یا معاشی عدم استحکام؟ ملک کے کرتا دھرتاؤں سے عوام کی کیا توقعات ہیں؟ فوری توجہ اقتصادی بحالی پر ہویا سیاسی استحکام پر؟ اس حوالے سے عام پاکستانی مشکل کیفیت میں ہے، ایک طرف کنواں ہے اوردوسری طرف کھائی ہے۔کرے تو کیا نہ کرے تو کیا۔ پاکستانی عوام کاسب سے بڑا مسئلہ معیشت کے بحران کا ہے۔ عوام کو نہ تو روزگار میسر ہے اور نہ ہی ریاست کی طرف سے کوئی مدد۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر، مہنگائی اورپٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافے، بجلی کے نرخوں اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے عوام کا جینا مشکل بنادیا ہے۔لوگوں کے منہ میں کوئی لقمہ جائے تب ہی کوئی سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں سوچے۔عام شہری کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اورملکی معیشت بدقسمتی سے بحران در بحران کا شکار ہے، عام شہریوں کی گذر بسرمشکل ہوتی ہے۔ مقتدر حلقے اور سیاست دان اس کا ادراک رکھنے کے باوجودعملاً چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ سیاسی استحکام ہی بہتر معیشت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد کی رہائشی ایک عمر رسیدہ خاتون کہتی ہیں "اب تو غریب شہری کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں"۔ خاتون کے بقول ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔شوہر کی وفات کو دس سال ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے گھر کی دال روٹی پوری کریں یا یہ سوچیں کہ سیاست پہلے ہے یا معیشت۔ ان کے مطابق سول حکمران ہوں یا فوجی حکمران، ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے سب ذمہ دار ہیں، اس ملک میں غریب آدمی کے لیے نہ روٹی ہے، نہ کپڑا اور نہ ہی روزگار۔ خاتون نے اپنا زخمی ہاتھ دکھایااور کہا، ''میری عمر تو لوگوں کے برتن مانجھتے مانجھتے گزر گئی لیکن آج تک اپنا کچھ نہیں بنا سکی۔ بس ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک تو صرف غریبوں کا خون چوسنے کے لیے بنایا گیا ہو“۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ فوجی حکمران ہوں یاسول حکومتیں (ن لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی کی سابق حکومتیں) یا پھر موجودہ اتحادی حکومت، ملکی معیشت کوورلڈ بنک اورآئی ایم ایف کے ہاتھوںگروی رکھ کر تباہ کرنے اور عوام پرظلم و جبرکے یہ سب ذمہ دار ہیں۔ ایجنڈے کے تحت ملک و قوم کو ملکی و غیرملکی مافیاز کے حوالے کردیا گیا ہے۔استعماری طاقتیں پاکستان میں عدم استحکام کی ذمہ دار ہیں۔حکمران قوم میں تقسیم درتقسیم کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ بیرونِ ملک بنکوں،آف شورکمپنیوں میں لوٹی ہوئی ملکی دولت اور اثاثے رکھنااور عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت کی دلدل میں دھکیلنا اور عوامی خیرخواہی کی بات کرنا ملک و قوم سے سنگین مذاق اور غداری ہے۔ قومی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 24 اعشاریہ 9 فیصد پر پہنچ گئی۔اگست میں یہ شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 42 اعشاریہ 31 فیصد ہوگئی۔ملکی معیشت مسلسل گڑھے میں گرتی جا رہی ہے اور نام نہاد پاپولر سیاسی جماعتیں باہمی سیاسی اختلافات کو عدلیہ کی دہلیز پرحل کرانے اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ایک دوسرے سےسبقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔عوام کی فکر کسی کو نہیں۔ایسے میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کیسے حاصل ہوئی؟ جدید دور کی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اور اسے پولیٹیکل اکانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔ان میں سے ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ سیاسی عدم استحکام کی کچھ وجوہات میں سے ایک ملک کا سکیورٹی اسٹیٹ ہونا بھی ہے۔ پاکستان ایک جوہری طاقت ہونے کے باعث عسکری طور پر تو مضبوط ہے مگر سیاسی معیشت عسکری پالیسیوں کی تابع بھی ہے۔اسی لیے انسانی وسائل کی ترقی عدم توجہ کا شکار ہے۔جب تک فوج، عدلیہ اور نوکرشاہی سیاسی معیشت کا استحکام یقینی بنانے پر مجبور نہیں ہوں گی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال جاری رہیں گے۔
سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی غیرضروری اور بے جا مداخلت ملک میں معاشی عدم استحکام اور عام آدمی کی مشکلات کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔معیشت اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جب تک جمہوریت اور سیاست میں استحکام نہیں آتا، معیشت کی حالت نازک ہی رہے گی۔ فوجی آمر پرویز مشرف کے دور کا اقتصادی بلبلہ جب پھٹا تو دو جمہوری حکومتوں نے اسے سنبھالا دیا، مگر خود ان حکومتوں کوسنبھلنے نہیں دیا گیا۔ ”ہائبرڈ رجیم“ نے معیشت کا جو حشر کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ معیشت کوٹیکنوکریٹس نے ٹھیک کرنا ہے یاعدلیہ نے یا اسٹیبلشمنٹ نے یا کسی اور نے؟ دنیا بھر میں تو یہ معاملات عوامی مینڈیٹ رکھنے والے سیاست دان ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ا±لٹی گنگا بہتی ہے۔ سی پیک منصوبے کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا کی نئی جہتوں نے بھی قومی سیاسی بحران کو بڑھایا ہے اور جو کچھ سوشل میڈیا پرکہا یا دکھایا جارہا ہے وہ بغیر کسی سنسر کے سامنے آتا ہے۔ جھوٹ کا غلبہ ہے۔جہاں سچائی کے پہلو ہونے چاہئیں وہاں بھی پروپیگنڈاجاری ہوتاہے۔
داخلی اور خارجی سطح پر ایسے کئی انفرادی یا اجتماعی افراد یا گروہ ہیں جو پاکستان میں سیاست اور اداروں کے درمیان موجود لڑائی کومزید گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ٹکراﺅ کی سیاست کو اور زیادہ نمایاں کیا جاسکے۔ ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کے تناظر میں ہمیں اپنے سیاسی اور معاشی بحران کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں،کس سمت محوِ سفر ہیں اور اس کی وجوہات یا عوامل کیا ہیں؟ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ہم محض داخلی بحران کا شکار نہیں بلکہ ہمیں علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے ایسے چیلنجز کاسامنا ہے جو ہم سے زیادہ سنجیدگی کا تقاضہ کرتے ہیں۔داخلی استحکام کی موجودگی اورٹکراﺅ کی سیاست کے خاتمے کو بنیاد بنا کر ہی ہم علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے معاملات سے نمٹنے کے لیے اپنا روڈ میپ ترتیب دے سکتے ہیں۔
داخلی محاذ پر ٹکراﺅکی سیاست کی جو مہم عرصہ دراز سے جاری ہے اس میں ہم خود کتنے ذمے دار ہیں اورہماری کونسی ایسی پالیسیاں ہیں جو ان مسائل میں شدت کاسبب ہیں۔محض جذباتیت یا ردعمل کی سیاست کو بنیاد بنا کر قومی مسائل سے نمٹنا ممکن نہیں۔اسی طرح اگر طاقت کے بل بوتے پر سیاسی مخالفین کو ختم کیا جاسکتا ہے تو یہ محض خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے۔داخلی مسائل کی الجھنوں نے ہمیں جہاں ایک بڑے سیاسی گرداب میں پھنسا دیا ہے، وہیں علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے مسائل پر ہماری توجہ کا ہٹنا خود ہمارے لیے اس سطح پر بھی مسائل کو پیدا کررہا ہے۔ معاشی مسائل کاحل ملک میں سیاسی استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے ۔کوئی روایتی اور وقتی پالیسی ملک و قوم کو موجودہ سیاسی، معاشی بحرانوں سے نہیں نکال پائے گی۔سیاسی مسائل کو نظر انداز کرکے معاشی ترقی کا حل ڈھونڈنا دیوانے بڑ تو ہوسکتی ہے، درست تجزیہ نہیں۔مضبوط اور مربوط سیاسی صف بندی اور اہم قومی سیاسی اور معاشی معاملات پرقومی قیادت اتفاق رائے سےہی ہم بحیثیت قوم موجودہ سیاسی، معاشی بحرانوں پر پائیدارانداز میں قابو پا سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک قومی سیاسی قیادت، فوجی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سول بیوروکریسی سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے ملکی نظام کوبہتر بنانے سے متعلق کسی سنجیدہ فیصلہ پرمتفق نہیں ہوتے، تب تک ملک میں سیاسی، معاشی استحکام کی توقع دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔عوام اِن نام نہاد سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے دے کر بے زارہوچکے ہیں، عام آدمی کے حالات بدلنے کا دور دور تک کوئی امکان نظرنہیں آتا،کوئی انقلاب ہی عوامی جذبات واحساسات کی ترجمانی کا سبب بنے تو بنےاور حالات سدھریں تو سدھریں، تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حالات تب تک بدلتے ہیں اور نہ سدھرتے ہیں جب تک عوام خود حالات بدلنے اور سدھارنے کیلئے تیار نہ ہوں۔
بقول مولانا ظفرعلی خان
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جماعتِ اسلامی کا اِس حوالے سے موقف بالکل واضح ہے کہ ملک میں سیاسی، اقتصادی استحکام لانا ہے تو بلاامتیاز ملک سے کرپشن، ناانصافی، غربت،بے روزگاری کا خاتمہ ہو، بداخلاقی، بدتہذیبی پر مبنی سیاسی کلچر کی حوصلہ شکنی ہو اورسیاسی معاملات میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی غیرضروری مداخلت کو بندکیا جائے۔ ضد، ہٹ دھرمی، انانیت اورنفرت پر مبنی رویہ ترک کرکے قومی معاملات پر قومی سیاسی قیادت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز متحدہوکرقومی بیانیہ اورمتفقہ قومی پالیسی تشکیل دیں۔آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار کی حقیقی عوامی نمائندوں کو منتقلی ہی مسائل کا واحد اور پائیدارحل ہے۔