میں پنجاب کے بائیس اضلاع سے آئی ہوئی ان خواتین کے ساتھ موجود تھا جو اپنے دودھ پیتے بچوں کے ساتھ کورونا اور ڈینگی کے موسم میں بستر اٹھائے احتجاج کے لئے لاہور پہنچی ہوئی تھیں۔ یہ سوال میں نے ہر مرتبہ احتجاج کرنے والے مجبوروں سے پوچھا ہے کہ جب آپ لوگ لاہور آتے ہیں تو کیا کورونا یا ڈینگی سے مرنے سے ڈر نہیں لگتا کہ لاہور ان بیماریوں کا گڑھ ہے۔ ہر مرتبہ ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ہمیں کورونا یا ڈینگی نہیں مگر اپنے بچوں کے بھوک اور فاقوں سے مرنے سے ڈر لگتا ہے۔ پاپولیشن ویلفیئر ڈپیارٹمنٹ کی ملازم خواتین اور مرد بتا رہے تھے کہ پی ٹی آئی سرکار نے ان کی خدمات کو معاشرے کے لئے لازمی سمجھتے ہوئے ان کے پراجیکٹ کو تو پکا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے مگراس کے ساتھ ہی چار ہزار کے قریب ان تمام ملازمین کو اکتیس دسمبر سے گھر بھیجنے کا حکم بھی دے دیا ہے جو سات، سات برس سے ملازمت کر رہے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ پاپولیشن ویلفیئر ڈپیارٹمنٹ کے ہزاروں ملازمین کی جگہ نئی بھرتی کی جائے۔میں نے ان ملازمین سے کہا کہ آپ لوگ تجربہ کار ہیں، اصلاحات میں کیا حرج ہے، آپ کو دوبارہ بھرتی کیا جا سکتا ہے تو اس کا جواب تھا کہ ان کی اکثریت اوور ایج ہوچکی ہے۔ خواتین کارکنوں نے ایک محترم خاتون کو میرے سامنے کھڑا کر دیاجس کا ایک بازو بھی نہیں تھا مگر وہ برسوں سے ملازمت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی، وہ سوال کر رہے تھے کہ کیا اسے بھی دوبارہ ملازمت ملے گی تو میرے پاس ان کے سوالوں کے کوئی جواب نہیں تھے۔
یقین کیجئے میرے بس میں ہوتا تو ان کے وزیر کے پاس پہنچ جاتا اور پوچھتا کہ تم یہ ظلم کیوں کر رہے ہو مگر اس حکومت کے وزیر خدا بنے ہوئے ہیں جو دکھائی تک نہیں دیتے۔ میں نے اس سے پہلے بہت مرتبہ کوشش کہ وزیر صحت یاسمین راشد سے رابطہ کروں اور ان سے پوچھوں کہ آپ لوگ عام ایمرجنسی، ڈینگی او رکورونا کے مریضوں کوہسپتالوں کی ایک ہی ایمرجنسی میں کیوں ڈال رہے ہیں، ان سے پوچھوں کہ آپ کے ساتھ ساتھ بخار کی عام سی دوا پینا ڈول کی تین کروڑ گولیاں کہاں غائب ہو گئی ہیں مگر یاسمین بی بی انہی صحافیوں سے بات کرنا پسند کرتی ہیں جو سوال نہیں کرتے بلکہ صرف واہ واہ کرتے ہیں۔ میں بھی ان سے وعدہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ ان سے ہر سوال سے پہلے ان کی تعریفیں کروں گا کہ آپ ستر برس کی عمر اور کینسر کے مرض کے باوجود اس قوم کی خدمت کر رہی ہیں جس نے کبھی آپ کو منتخب نہیں کیا یعنی آپ حسن اخلاق کی معراج پر ہیں مگر اس کے بعد سوال ضرور کروں گا۔ پالولیشن ویلفیئر ڈپیارٹمنٹ کے ملازمین بتا رہے تھے کہ انہوں نے تین برس پہلے بھی مظاہرہ کیا تھا اور ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ محکمے کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ریگولر کر دیا جائے گا مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنی یوٹرن اور وعدہ خلافی کی پالیسی برقرار رکھی اور ان بے چارے ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ایک خاتون مجھے بتا رہی تھیں کہ ان کی تنخواہ صرف نو ہزار روپے ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ صرف نوہزار روپے، حکومت تو کہتی ہے کہ وہ کم از کم تنخواہ بیس ہزار روپے دیتی ہے۔ جواب تھا کہ اب وہ نو ہزار بھی چھیننے جا رہے ہیں، وہ کہاں جائیں، کس کا در کھٹکھٹائیں؟
کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ نون لیگ کے دور میں بھرتی ہوئے تھے لہٰذا انہیں فارغ کرکے میرٹ پر بھرتیاں ضروری ہیں اور مجھے اچھی طرح علم ہے کہ اس وقت میرٹ کیا چل رہا ہے۔ یہ کسی پوسٹ کے لئے تین لاکھ ہے اور کسی پوسٹ کے تین کروڑ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر حکومت اندھی ہے تو اپوزیشن کے کانوں میں کب کسی مجبوراور مظلوم کی آواز پہنچتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی غریب عوام کی پارٹی سمجھی جاتی تھی مگر سنٹرل پنجاب میں وہ فارغ ہو چکی ہے۔ اس کے اسمبلی میں موجودہ عہدیداروں کی شہرت اور اہلیت پنجابی سٹیج ڈراموں کے جگت بازوں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ پنجابی زبان میں ایک جگت یاد کرتے ہیں، اسے اسمبلی فلور یا کسی جلسے میں ریکارڈ کرواتے ہیں اور پھر اس کی لائیکنگ اور شئیرنگ دیکھ دیکھ کر اپنا ہی منہ چومتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف نواز لیگ ہے جو دودھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک دھڑے کے مسائل آسمانی اور خلائی نوعیت کے ہیں اور وہ دھڑا سمجھتا ہے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقریریں، نعرے اور ٹوئیٹ ہی تمام مسائل کے حل ہیں۔ ان کی ہر تقریر صرف ذاتی اقتدار کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے منہ سے کوئی دوسرا لفظ نکلتا ہی نہیں مگر وہ لوگ کیا کریں جن کے مسائل خلائی نہیں بلکہ زمینی ہیں۔ دوسرا دھڑا بھی راکھ مل کے بیٹھا ہوا ہے۔ شہباز شریف عوامی مسائل پر ٹوئیٹ کرتے رہتے ہیں مگر ایسے لوگوں کی مدد کون کرے جو لاچار اور مجبور کر دئیے جاتے ہیں اور سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ نواز لیگ کے دور میں اپوزیشن جماعتیں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا کرتی تھیں مگر موجودہ دور کی اپوزیشن کو بہت سارے ڈر ہیں۔ کسی کو ڈر ہے کہ اگر اس نے حقیقی سیاست کی تو وہ گرفتار کر لیا جائے گا اور کسی کا موقف ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے لہٰذاعوام تنہا ہیں، اکیلے ہیں۔ میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ اسمبلی میں ایسی تحاریک التوائے کار پیش کی گئی ہوں، ایسے بے چاروں کے لئے واک آوٹ کئے گئے ہوں۔
مجھے علم ہے کہ حکمرانوں کے پاس وقت کم ہے۔ وہ جو کام سوا تین برسوں میں نہیں کر سکے وہ انہوں نے اگلے ڈیڑھ برس میں پورے کرنے ہیں کیونکہ ان کے دل اور دماغ میں کہیں خوف موجود ہے کہ اگلے انتخابات فئیر اینڈ فری ہوسکتے ہیں اور یوں ان کا جو داؤ لگا ہوا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ کاش میں ان کی یہ پریشانی دور کرتے ہوئے انہیں عوام کے مسائل حل (باقی صفحہ 4بقیہ نمبر1)
کرنے کی طرف لا سکتا۔ انہیں بتا سکتا کہ انہیں آگے بھی موقع ملنے کے بھرپور امکانات ہیں لہٰذا وہ اپنی کمائی کے سولہ، سولہ گھنٹوں میں سے ایک دو گھنٹے ایسے لوگوں کے مسائل حل کرنے پر لگا دیں جو پریشان ہوں، رو رہے ہوں۔ میں نے کبھی سیاستدانوں کی مخالفت نہیں کی مگر یہ امر ایک حقیقت ہے کہ کروڑوں روپے الیکشن جیسی عیاشی پر خرچ کرنے والوں کو ان کے مسائل کا علم ہی نہیں ہوسکتا جنہیں دس،بیس ہزار ماہانہ کی نوکری جانے کا ڈر پڑا ہو۔ یہ ڈر ہو کہ مہینے بھر کی محنت کے بعد ملنے والے یہ مٹھی بھر روپے بھی نہ رہے تو وہ گھر میں آٹااور دالیں کیسے ڈال سکیں گے، اپنے بچوں کے لئے دودھ اور ادویات کیسے لے سکیں گے۔ ایک اطمینان کی بات ہے کہ ان کے پاس حاجی ارشاد کی ایپکا کی صورت ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے کم از کم احتجاج تو ہوسکتا ہے۔ مجھے بعض لوگوں نے کہا کہ ایپکاکے دوسرے دھڑے اس سے زیادہ بڑے ہیں تو میرا جواب ہے کہ جو ملازمین کے حقوق کے لئے باہر نکلے گا میں اسی کو کوریج دے سکتاہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ بڑے بڑے دھڑے گھروں میں بیٹھے ہوں اور ہم انہیں کوریج دے رہے ہوں۔
اندھی حکومت بہری اپوزیشن
09:22 AM, 14 Nov, 2021