عمران خان رہے یا نہ رہے

Atta ur Rehman, Pakistan, Lahore, e-paper, Naibaat Urdu News paper

تحریک پاکستان کے قائدین کو ان کی نہایت درجہ کامیاب اور تاریخ ساز جدوجہد کے علاوہ ہ امتیاز بھی حاصل رہا ہے وہ مخالفین کے مقابلے میں زبان و بیان کے لحاظ سے نہایت درجہ احتیاط اور شائستگی کا مظاہرہ کرتے تھے…… قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اصل جنگ ہندو کانگریس کی لیڈرشپ کے ساتھ تھی اور انہیں بانی پاکستان سے اس بات کی شکایت کبھی نہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے مدمقابل مسٹر گاندھی، پنڈت نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی طاقت ور اور بااثر شخصیات کے خلاف کبھی ایک لفظ یا جملہ ایسا کہا ہو جسے ان کی ذاتی توہین پر محمول کیا جاتا…… گاندھی نے ایک ملاقات کے دوران ان سے طنزاً سوال کیا آپ کو قائداعظمؒ کہہ کر پکاروں یا مسٹر جناح؟ تو قائد کا برجستہ جواب تھا پھول کو کوئی نام بھی دے دیں اس کی خوشبو اسی طرح مہک دے گی۔ گاندھی جیسا ہندو قوم کا مہاتما یہ سن کر چپ ہو گیا اور شائد اس نے اپنے حریفِ اولیٰ کے جوابی وار کا لطف بھی لیاہو…… تاہم یہ مکالمہ ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا…… مولانا ابوالکلام آزاد کے علم و بیان اور دینی و سیاسی ابلاغ پر ان کی بے مثال گرفت کا چار دانگِ عالم میں شہرہ تھا…… 1945-46 کے ماہ و سال میں مرحوم کو غالباً ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر آل انڈیا کانگریس کا صدر منتخب کر لیا گیا تاکہ کانگریس کے سیکولر چہرے کا اثبات کیا جائے…… اس حیثیت سے مسلم لیگی لیڈر شپ کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے سامنے لائے جائیں …… لیکن قائد نے ایک ہی لفظ میں ان کی اوقات سامنے لا کر رکھ دی…… کہا! ابوالکلام محض ایک شو بوائے کی حیثیت رکھتے ہیں …… مولانا آزاد جیسا صاحب علم و بیان جس کی جناب میں الفاظ اور جملے لونڈیوں کی مانند ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے تھے…… قائد کی جانب سے ان کی اصل سیاسی حیثیت کا راز فاش کر دینے والا یہ جملہ اپنا جواب نہ پیش کر سکا…… قائد کے بعد لیاقت علی خان، نواب اسماعیل اور عبدالرب نشتر جیسی قدآور شخصیات تحریک پاکستان کے صفِ اول کی لیڈرشپ میں شمار کی جاتی تھیں ان کے ساتھ بھی کوئی ایسا لفظ یا جملہ منسوب نہیں کیا جا سکتا جس سے کسی بھی معنی میں پایہ ثقاہت سے گرا ہوا قرار دیا جا سکے…… قیامِ پاکستان کے بعد جناب قائد نے ملک کی زمام اقتدار سنبھالی لیکن زندگی نے موقع نہ دیا…… لیاقت علی خان نے فطری طور پر عملاً ان کی جگہ سنبھال لی…… انہیں بطور وزیراعظم پاکستان بہت سے مخالفین کا سامنا تھا…… ہر وقت سیاسی مقابلے پر مستعد بھی رہتے تھے لیکن کبھی ایک لفظ زبان سے ایسا نہ نکالا جو مخالفین کے لیے ذاتی رنجش کا باعث بنا ہو…… شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ انہیں سیاسی میدان میں شکست دینا ممکن نہ رہا تو محروم کی زندگی تو گولیوں کی بوچھاڑ کی نذر کر دیا…… ان کے بعد خواجہ ناظم الدین اور پھر حسین شہید سہروردی جیسی ایک دوسرے کی سیاسی مخالف شخصیات برسراقتدار آئیں …… ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے…… تاہم اپنی زبان کو کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا…… قیام مملکت کے بعد صف اوّل کی اور برسراقتدار مسلم لیگی لیڈر شپ کے ایک بڑے سیاسی ناقد مفکر اسلام امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے…… انہوں نے جلسے بھی کیے، تقریروں سے سماں باندھا اور اعلیٰ درجے کی ناقدانہ تحریریں ضبط تحریر میں لائے…… پوری کی پوری ایک نسل کی ذہنی آبیاری کی…… وقت کے حکمرانوں کے خوب لتّے لیتے تھے…… لیکن گنگا و جمنا میں دھلی ہوئی ایسی شفاف اور علم و فضل کے موتیوں سے لدی ہوئی ایسی زبان سے مافی الضمیر ادا کرتے اور استدلال کی ایسی مالائیں تیار کرتے تھے کہ سیاسی اور ادبی محاذ دونوں کے مخالفین کہنے پر مجبور ہو جاتے تھے…… ’دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں‘…… مگر پھر ملک مارشل لاؤں کی نذر ہو گیا…… بدقسمتی سے دولخت بھی ہوا…… اس کے بعد جو لیڈرشپ ابھری جن میں ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور موجودہ وزیراعظم عمران خان نمایاں ہیں …… ان کے ادوار میں اپنے مخالفین سے مخاطب ہوتے وقت وہ معیارات باقی نہ رہے جو قائدینِ تحریک پاکستان کا طرۂ امتیاز تھا…… بھٹو صاحب کا
تقاریر اور بیانات میں جملہ بازی کرتے وقت دامنِ احتیاط قابو میں نہ رہتا تھا…… نوازشریف نے ذاتی طور پر مقابلتاً نرم لہجے اور شائستہ بیانی سے کام لینے کی روش اختیار کی…… لیکن انہیں لیڈر بنانے میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کے جس سیاسی پلیٹ فارم کو وجود میں لایا گیا اس کی پراپیگنڈا مشینری نے بھٹو خاندان کی خواتین پر نازیبا جملے کسے جنہیں آج تک ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے…… پھر عمران خان جیسے کرکٹ کے کامیاب کھلاڑی میدان میں اترے یا اتارے گئے…… جس جس کو سیاسی حریف جانا اسے خوب خوب للکارا اور لتاڑا…… اب سیاست اس لحاظ سے ضرور آزاد ہو چکی تھی کہ سوشل میڈیا بھی بیچ میدان کے آن ٹپکا تھا اور اس کا مادرپدر آزاد ہونے میں دو رائے نہیں پائی جاتیں …… عمران بہادر نے ہر طرح کے ذرائع ابلاغ خواہ عوامی جلسوں میں کی جانے والی تقریریں ہوں، اخباری بیانات، ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحث یا سوشل میڈیا کا کھلا میدان تقریباً تمام حدود کو پامال کر دیا…… ذاتی حملوں کی بوچھاڑ میں کسی بھی ذات و کردار کو محفوظ نہ رہنے دیا…… مثالیں دینے کی ضرورت نہیں یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور اس نے ملک و قوم کی فضا کو مکدر کر رکھا ہے…… اس کی بدولت نہیں کہا جا سکتا کہ لمحہئ موجود کے اندر پاکستان کی فضاؤں میں فضائی آلودگی کا تناسب زیادہ ہے یا گھٹیا زبان و بیان نے اپنا چھاتا زیادہ مؤثر طریقے سے تان رکھا ہے……
مگر اے یارانِ وطن! اگلے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے حضور 16 اگست 2014 کے پرلے درجے کے دلخراش، انسانیت سوز اور ہولناک ترین واقعہ کے بارے میں جو 16 اگست 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں رونما ہوا…… سوال یہ درپیش تھا کون اس کا ذمہ دار تھا،کس نے خفیہ منصوبہ بندی کی اور ذمہ داران کو ابھی تک سزا کیوں نہیں دی گئی…… اس پر عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس پر سماعت کے دوران وزیراعظم بہادر بھی پیش ہوئے اور 147 عدد شہید ہونے والے پھول جیسے نوجوان طلبا اور ان کی ہیڈمسٹریس کو وحشیانہ طریقے سے دہشت گردی کی نظر کر دینے والے سانحے کی جو سماعت ہو رہی تھی اس دوران ان جنت آشیانی بچوں کی ماؤں نے جو روح و دماغ کو جھلسا کر رکھ دینے والا انکشاف کیا…… اس کی وجہ سے تو پوری قوم کے سر ڈوب نہیں شرم سے غرق ہو کر رہ گئے…… دو شہید بچوں کی ماں نے روتے اور بلکتے ہوئے سرعام بتایا کہ وقت کے کور کمانڈر پشاور سے جب حقیقی دادرسی کی فریاد کی گئی اور کہا گیا اور مطالبہ کیا گیا واقعہ کے اصل اور نہایت درجہ طاقت ور ذمہ داران کو بے نقاب کر کے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے…… اور یہ سانحہ اعلیٰ اور خفیہ سطح پر کی جانے والی اعلیٰ درجے کے مقتدر لوگوں کی کس شیطانی منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا…… تو کور کمانڈر پشاور نے جن کا نام بھی وقت کے دو اور بڑے جرنیلوں کے ساتھ اس غم کی ماری ہوئی بدقسمت ماں نے لیا نہایت درجہ حقارت کے ساتھ جواب دیا پاکستان لوگ شہید ہوتے رہتے ہیں …… تمہارے بیٹے مر گئے ہیں تو اور پیدا کر لو…… لا حول ولا قوۃ الاّ باللہ ……خدارا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کوئی ماں اپنے بیٹوں کی ناگہانی موت پر ایسا جملہ سننا برداشت کر سکتی ہے؟ یا کوئی بھی شخص اس کا مہذب اور شائستہ ہونا تو دور کی بات ہے اس کا تعلق کسی ان پڑھ اور وحشی قبیلے سے بھی ہو غم کی ماری ہوئی ماں کے سامنے ایسے الفاظ منہ سے نکال سکتا ہے؟ پشاور کے سابق کور کمانڈر صاحب نے تو جن پر ڈیڑھ سو کے قریب شہید ہونے والے بچوں اور خواتین کے لواحقین کھل کر الزام لگا رہے ہیں کہ آرمی پبلک سکول کے سانحے کی منصوبہ بندی ان کے اور وقت کے سب سے بڑے دو حاضر سروس جرنیلوں کے حکم سے ہوئی تھی…… ایک وقت کے آرمی چیف تھے اور دوسرے ڈی جی آئی ایس آئی…… نام آپ خود جان لیجیے…… ابھی کل کی بات ہے……
یہ سب کے سب مارشل لائی ذہن کے لوگ ہیں …… انہوں نے ناقابل برداشت بدزبانی میں شرافت کی آخری حدود کو اپنے بوٹوں تلے پامال کر کے رکھ دیا…… پاکستان میں 1958 سے مارشل لاء چلا آیا ہے…… جب ننگا مارشل لاء نہیں ہوتا تو نیم مارشل لاء اور نیم سول حکمرانی کا وہ بھونڈا نظام مسلط کر دیا جاتا ہے جسے آج کل ہائی برڈ نظام بھی کہا جاتا ہے اور جن کے ہاتھوں سے لائی ہوئی سول حکومت نے اس وقت مملکت خداداد کو قرضوں مہنگائی اور عوام کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والے اس بے روزگاری میں جکڑ رکھا ہے کہ 70 سال کی تاریخ میں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا…… آئین کو کوئی پوچھتا نہیں …… پارلیمنٹ کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا…… اگر پارلیمنٹ سے کوئی قانون منظور کروانا ضروری ہو جائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں …… ملک کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کرنے والا یہ نظام جس کے بارے میں زیربحث سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک جج نے برملا کہا کہ کیا ہم ایک دفعہ پھر نئی سرنڈر دستاویز پر دستخط کرنے جا رہے ہیں …… اس تناظر میں ملک کے اندر کسی نوعیت کی بھی تبدیلی خواہ وہ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی ہو یا ایک یا زیادہ صوبائی حکومتوں کی اس وقت تک بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے…… جب تک اس ہائی برڈ یا نیم فوجی نیم سویلین نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر نہیں پھینک دیا جاتا، خرابی کسی سیاست دان کے برسراقتدار آنے یا نہ آنے میں نہیں …… اس بھونڈے نظام میں ہے جو اپنی فطرت کے لحاظ سے ننگے مارشل لاء کا تسلسل ہے ہمارے سروں پر مسلط رکھنے کی ترکیب…… لہٰذا قوم و اہلِ وطن کا اولین فرض ہے کہ اپنی تمام طور پر جدوجہد کا مرکز اس نقطے کو بنائیں کہ جب تک مارشل لاء اور اس کی باقیات کو خس و خاشاک میں تبدیل کر کے نہیں رکھ دیا جاتا اس وقت تک کسی نوعیت کی سیاسی تبدیلی بے معنی ہو کر رہ جائے گی…… خواہ اس کا تعلق عمران خان کو ایوانِ اقتدار سے باہر نکال پھینکنا ہو یا نوازشریف کو دوبارہ واپس لانا…… دونوں کی جگہ کسی تیسرے کو بھی لے آئیں خواہ وہ کتنا دودھوں نہایا ہو…… جب تک سرزمین وطن کو مارشل لاؤں کی گندگی سے پاک نہیں کر لیا جاتا اور سیاسی ماحول صحیح معنوں میں آزاد نہیں ہو جاتا اس وقت تک کسی ایک بھی سیاست دان کے آنے یا جانے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا……