فضول یات

Ali Imran Junior, Pakistan, Lahore, e-paper, Naibaat Urdu News paper

دوستو،ہم جب بچپن میں چھوٹے سے تھے، اب آپ یہ مت سوچئے گا کہ بچپن میں تو سب ہی چھوٹے ہوتے ہیں اس میں کیا نئی بات ہے، بات یہی ہے جو آپ سوچ رہے ہیں،لیکن ہمارے اس دوست کو پتہ نہیں تھی جو ایک بار جہلم کے ایک گاؤں سیر کے لئے گیا تو وہاں میزبان نے انہیں بتایا کہ،یہاں (یعنی اس گاؤں میں) بڑے بڑے لوگ پیدا ہوتے ہیں، جس پرہمارے پیارے دوست نے حیرت سے پوچھا، اچھا جی،بہت ہی انوکھا گاؤں ہے یہ،ورنہ دنیا بھر میں تو بچے ہی پیدا ہوتے ہیں۔۔ ارے جناب، دماغ نہ بھٹکائیں،بچوں پر پھر سے یاد آگیا کہ۔۔ہم جب چھوٹے سے تھے تو کہانیوں میں کافی دلچسپی لیتے تھے،اب بھی بچوں کو ان کی مائیں، دادی یا نانی اماں کہانیاں سناتی ہیں، ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ۔۔ اس طرح بچوں کو کہانیاں سنانے سے ان کی تخیلات کومہمیز ملتی ہے اور وہ سوچنے سمجھنے لگ جاتے ہیں۔۔
آج دل بھی چاہ رہا ہے کہ آپ کو کہانی سناؤں۔۔کسی گاؤں میں ایک گونگا لڑکا رہتا تھا اسے گاؤں کی بہری لڑکی سے عشق ہو گیا دونوں میں بہت پیار تھا گونگا جب بھی گانا گاتا، بہری اسے سن کر دوڑی چلی آتی گونگے کی آواز میں اتنا درد تھا کہ اسے سن کر بہری کے آنسو نکل آتے۔۔ بہری کا ایک اندھا چچا ہوتا ہے وہ ایک دن دونوں کو کھیت میں پیار کی باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے اور دوڑتا ہوا بہرے کے معذور باپ کے پاس آتا ہے جسکی ٹانگیں ٹرین کے حادثے میں کٹ چکی ہیں جیسے ہی بہری کا باپ یہ سنتا ہے وہ گھر میں دوڑا ہوا جاتا ہے، سائیکل نکالتا ہے باہر آ کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتا ہے کھیتوں کے پاس جا کر گاڑی روکتا ہے۔۔ گھوڑے سے اترتا ہے جیسے ہی وہ دیکھتا ہے اسکی بیٹی گونگے کے ساتھ باتیں کر رہی ہے وہ غصہ میں آ کر خنجر نکالتا ہے اور دو فائر کرتا ہے جیسے ہی فائر کرتا ہے دو تیر گونگے کے سینے میں لگتے ہیں گونگا نیزا نکال کر کہتا ہے یہ آخر کس نے کیا؟۔۔ گونگے کا خون نکل رہا ہے اس کی چیخیں سن کر بہری رو رہی ہے اور خود بھی چلا رہی ہے" کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو" کچھ دیر بعد پولیس وین آتی ہے تمام پولیس والے ایمبولینس سے اترتے ہیں۔۔گونگے اور بہری کو بس میں ڈال کر ٹرک کے ذریعے بس سٹاپ پہنچاتے ہیں وہاں سے ٹرین میں بیٹھ کر ائیر پورٹ آتے ہیں وہاں سے پانی کے جہاز میں بیٹھ کر میؤاسپتال لاہور آتے ہیں وہاں ایمرجنسی وارڈ کے بیرک نمبر چار میں ڈیوٹی پر موجود تمام وکلا اور انجنئیر۔۔گونگے کی گولیاں نکال دیتے ہیں۔۔اور ٹوٹے ہوئے تیرڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔۔ پھر گونگے کے زخموں پر نمک مرچ چھڑک کراوپر سے دہی کا لیپ لگادیتے ہیں۔۔گونگا ٹھیک ہو جاتا ہے گونگے بہری کی شادی ہو جاتی ہے، کچھ عرصہ بعد ان کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اندھا،گونگا بہرا ہوتا ہے اس کے ہاتھ اور پاؤں کسی بیماری کی وجہ سے کاٹ دیتے ہیں اور وہ تینوں ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔۔بس کہانی ختم۔۔ پیسہ ہضم۔۔
شادی پر یادآیا۔۔ویسے تو شادی ایک آرٹ ہے مگر ہمارے ہاں یہ مارشل آرٹ ہے۔ امریکی سیانوں کا خیال ہے کہ بوڑھے کا شادی کرناایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ان پڑھ اخبار خرید نا شروع کردے۔مصری دانشور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شادی چھوٹے قد کی عورت سے کرنی چاہیے کیونکہ مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی بہتر ہے۔سندھی کہاوت ہے کہ خوبصورت لڑکی پیدا ہوتے ہی آدھی شادی شدہ ہوتی ہے اورباباجی کہتے ہیں کہ بیوی کود ل نہیں دینا چاہیے کیونکہ بیوی کو دل دینے کا مطلب یہ ہے کہ باقی عمر بے دلی سے گزارنا۔ایک سردار نے اپنے دوست کو بتایا کہ آج میں نے اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ سینما جاتے دیکھا۔تم ان کے پیچھے کیوں نہیں گئے جب دوست نے یہ کہا تو سردار بولا، چھوڑو یا ر میں نے وہ فلم 5مرتبہ دیکھی ہوئی تھی۔یہ بات بھی اپنی جگہ سوفیصد حقیقت ہے کہ نوے فیصد بیویاں اپنے شوہروں کی عادات تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں جب کہ ننانوے فیصد مرد تو بیوی ہی تبدیل کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کاکہنا ہے کہ بیوی ”عزت“ دینے والی ہونی چاہیئے ورنہ ”بزتی“ تو اماں بھی ٹکا کے کردیتی ہیں۔۔جب شادی کے پہلے روز دلہا نے اپنی نئی نویلی دلہن سے کہا کہ،میرے شادی سے پہلے بیسیوں افیئر چلے ہیں تو دلہن مسکرا کر بولی۔۔ہاں جی مجھے اندازہ تھا،جب ستارے ملے ہیں تو کرتوت بھی ملتے ہوں گے۔۔ہمیں تو بیویوں کی ایک ہی خوبی پسند ہے،جسے سب شوہران بھی لازمی پسند کرتے ہوں گے،وہ یہ کہ بیویاں جو کام بھی کرتی ہیں دل لگا کر کرتی ہیں کیوں کہ دماغ تو ان کے پاس ہوتا ہی نہیں۔۔ہمارے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ۔۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کیلئے کار کا دروازہ کھولے تو سمجھ جائیں کہ۔۔ یا تو کار نئی ہے یا پھر بیوی نئی ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو پھر بیوی نہیں ہے۔۔
اب ایک غیرسیاسی کہانی بھی سن لیں۔۔ ایک روز ایک غریب دیہاتی کتا شہر اپنے رشتے داروں میں ملنے جاتا ہے، سب خوش ہوتے ہیں،اسے گھماتے پھراتے ہیں، شام کو دیہاتی کتے کے ماموں نے کہا۔۔ آج رات شاندار ڈنر پارٹی میں جانا ہے تم الم غلم کچھ نہ کھاناابھی۔۔دیہاتی کتے کی خوراک ویسے ہی کافی ہوتی ہے اور اس نے لنچ کے بعد کچھ نہیں کھایا ہوتا،صبر کرلیتاہے۔۔رات ماموں کی سربراہی میں سب پارٹی میں جاتے ہیں۔۔جہاں شراب و کباب کی بہتات ہوتی ہے۔۔سارے کتے سائیڈ پر بیٹھ جاتے ہیں۔۔کچھ ہی دیر میں تکوں کی ہڈیاں ان کی طرف آتی ہیں۔۔ دیہاتی کتا لپکتا ہے۔۔ماموں روکتا ہے۔۔صبر کر صبر۔۔ دیہاتی کتا دم ہلا کے بیٹھ جاتا ہے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کچھ کچھ گوشت لگی ہڈیاں کتوں کی طرف گرنے لگتی ہیں۔۔ ماموں پھردیہاتی سمیت تمام کتوں کو روکتا ہے۔۔ پارٹی میں شراب اسٹارٹ ہوتی ہے،جس کے بعد ادھ کھائے تکے کتوں کی طرف گرتے ہیں۔۔دیہاتی کتے کو ماموں پھر روکتا ہے جس پر وہ تپ جاتا ہے۔۔ یار ماموں اب صبر نہیں ہورہا،بھوک سے جان نکلے جا رہی ہے۔۔ ماموں اسے پچکار کر کہتے ہیں۔۔۔ بیٹا کچھ دیر انتظار کرلے۔۔انہیں اور شراب پینے دے پھر ہم لوگ ٹیبلوں پر بیٹھ کر ڈنر کرینگے۔۔مورال: بزرگ ہمارے ہوں یا کتوں کے۔۔تجربے کا کوئی مول نہیں ہوتا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستان آسٹریلیاسے سیمی فائنل ہار گیا، ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں، سیانے کہہ گئے ہیں۔۔ خود کا دوسروں سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیں، سورج ہویاچاند،اپنے اپنے وقت پر چمکتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔