عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی روشنی میں بحال شدہ مقامی حکومتوں کے نمائندگان اب متحرک دکھائی دیتے ہیں،اپنے اپنے اجلاسوں میں بجٹ کی منظوری کے مراحل سے گذر رہے ہیں،ترقیاتی فنڈز کے علاوہ دیگر اخراجات کے لئے رقوم بھی مختص کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کام جو انھوں نے ادھورے چھوڑے تھے،اسکی تکمیل بھی ان کے پیش نظر ہے۔
جس ریاست کے ہم باسی ہیں، وہاں مقامی حکومتیں ہمیشہ باوردی سرکار کے زیر سایہ ہی پروان چڑھتی رہی ہیں، سیاسی ادوار میں یہ اکثر زیر عتاب رہی ہیں، آئین کی آٹھارویں ترمیم کے بعد اِنکے متعلقہ اختیارات صوبہ جات کو منتقل ہو چکے ہیں اس لئے انکا انتظامی ڈھانچہ بھی اسی اعتبار سے مرتب کیا جارہا ہے،تاہم موجودہ مقامی قیادتیں شکوہ کناں ہے کہ سرکاری افسر ان سے تعاون نہیں کرتے، اسکی بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ جس جماعت سے انکا تعلق تھا، اسکی حکومت ہر صوبہ میں قائم نہیں ہے۔ ہم ابھی تک سیاسی طور پر اِتنے بالغ نہیں ہوئے کہ مخالف جماعت کی مقامی سرکار کو قوم کے وسیع تر مفاد میں گلے سے لگا لیں،وسعت قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکو فنڈز بھی فراہم کر دیں۔ اس حوالہ سے ہمارا ماضی زیادہ تابناک نہیں ہے، مرکز اور صوبہ جات میں دو مختلف جماعتوں کی حکومت ہو تو اسکی بھاری قیمت عوام ہی کو ادا کرنا پڑتی ہے، ہر دو پارٹی ایک دوسرے کے کاموں میں کیڑے نکالتی نظر آتی ہیں، اس کے منفی اثرات ہر سطح کی گورننس میں واضع دکھائی دیتے ہیں، اگر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین یہ کشمکش عین جمہوریت کہلاتی ہو تو پھر مقامی حکومتوں کی کیا اوقات ہے۔
نجانے کس ”مرد مجاہد‘‘نے اراکین پارلیمنٹ کو فنڈز دینے کی بدعت کا آغاز کیا اور اراکین اپوزیشن کو ان سے محروم رکھنے کا درس دیا تھا یہ پختہ روایت ہماری جمہوریت کے چہرہ پر بدنما ء داغ ہے۔فنڈز کے حصول کے لئے تو بھاری بھر سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اُس پارٹی کا ٹکٹ لیا جاتا ہے جس کے سر پر اقتدار کا ہماء خود آکر بیٹھ جائے، ان حالات میں تو یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ مقامی حکومت کو بھی بلا امتیاز ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں گے۔
عالمی سطح پر مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی نرسری مانا جاتا ہے،حقیقت میں اِن حکومتوں کے افراد ہی عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، معروف سکالر کلارک کا کہناہے کہ مقامی حکومت مرکز کی ذیلی سرکار ہوتی ہے،زیادہ تر ان
معاملات کو ڈیل کر تی ہے جو مقامی آبادی سے متعلقہ ہوتے ہیں، جس کا انتظامی اختیارآئینی طور اس سرکار کو تفویض کیا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں اِس وقت مقامی حکومتوں کے اختیارات اور سہولتوں کو اگر کوئی عوام انجوائے کر رہی ہے تو وہ برطانوی عوام ہے، کم و بیش اس طرح کا طرز حکومت امریکہ، فرانس میں بھی ہے جہاں کم سے کم آبادی کو تمام بنیادی سہولیات دینے میں مقامی حکومتوں کا بڑاکردار ہے۔
ہمارے لئے بھی یہ ممالک ایک رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں، اگر لوکل حکومتوں کو یہاں بھی مکمل فعال کیا جائے تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے انتظامی امور کا بوجھ کم ہو سکتا ہے، اگرسماجی خدمات، تعلیم،صحت،ہاوسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کوذمہ داری تفویض کی جائے تو اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
ایسی ریاست جہاں کی غالب آبادی نیم خواندہ ہو،عوامی نمائندگان کے انتخاب کے لئے کوئی تعلیمی معیار نہ ہو، وہاں کونسلرز کی بے بسی کا فائدہ لوکل حکومت کے افسران اُٹھاتے ہیں،کیونکہ مقامی حکومت کی قیادت کو دفتری امور میں جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ان کا تعلق مہارت، آڈٹ اور اکاونٹس کے معاملات سے ہوتا ہے،علاوہ ازیں فنڈز کی کمی بھی ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ سمجھی جاتی ہے،بے شمار ٹیکسوں کی کٹوتی بھی ان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے،چونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی ورکنگ گراس روٹ لیول تک ہے ہی نہیں،اس لئے یونین کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل، مونسپل کارپوریشن کے منتخب اراکین کی کوئی سیاسی تربیت بھی نہیں ہوتی،جو ہلٹر بازی ہمیں بڑی اسمبلیوں میں نظر آتی ہے اس ہی کی جھلک مذکورہ اداروں میں بھی دکھائی دیتی ہے، در حقیقت یہ ادارے بھی سیاسی کارکنوں کے لئے سیاسی اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں، تمام صوبہ جات میں اگر ایک ہی وقت میں جماعتی بنیادوں پرمقامی قیادت کے الیکشن ہوں تو اس سے قابل ذکر جمہوری اور سیاسی کلچر فروخت پا سکے گا،عام فرد جب اس میں حصہ لے تو اس سے سیاسی جماعتیں نچلی سطح تک مضبوط ہوں گی۔ جن ترقی یافتہ ممالک میں یہ حکومتیں بنیادی سہولیات ہر شہری کو فراہم کر رہی ہیں، وہاں بڑا عمل دخل سیاسی جماعتوں کی تربیت ہی کا ہے لیکن مورثی سیاست کے دلدادہ الیکٹیبل کو ترجیح دیتے ہیں۔اس سے مقامی سرکار کے ادارے بھی کمزور ہو رہے ہیں۔
فی زمانہ ڈیٹا سائنس کا ہی ہے اس کی بنیاد پر ہی فیصلہ اور پالیسی سازی موثر ہو سکتی ہے،حکومتوں کی درجہ بندی میں جغرافیائی طور پر سب سے چھوٹا یونٹ یونین کونسل ہی کا ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق اِسکی آبادی پندرہ سے بیس ہزار تک مشتمل ہوتی ہے، سرکاری مشینری کی موجودگی میں اس قلیل آبادی کا ڈیٹا رکھنا قطعی ناممکن نہیں، اس کو ہی سامنے رکھ کر ہاوسنگ کی فراہمی سے لے اشیاء خورونوش بہم پہنچانے تک آسانی ہو سکتی ہے، وسائل کی ترسیل،اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا جاسکتا ہے، بیماریوں کی صورت میں ادویات دیناہر گز مشکل نہ ہوگا،اسی مشق سے خوراک کی ضروریات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کتنے شفاخانے، تعلیمی ادارے،شاہراہیں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظرلازم ہیں، اس کے لئے کتنا بجٹ درکار ہو گا، یونین کونسل میں کتنے افراد تعلیم یافتہ ہیں، ان کی اہلیت کیا ہے، ان میں سے روزگار کتنے ہیں۔ اگر ہر یونین کونسل ڈیٹا کی بنیاد پر اپنا ترقیاتی بجٹ بنائے تو وہ بہت سے وسائل کو ضائع ہونے سے بچا سکتی ہے، اس طرح گھوسٹ ملازمین کا بھی پتہ لگایا جاسکتا ہے، ڈیٹا کا یہ حصول قومی اداروں کی معاونت سے ممکن ہے۔
دیہی، شہری آبادی میں بڑی تعداد پڑھے لکھے افراد کی ہے جن میں بہت سے لوگ اپنے اپنے شعبہ جات میں مہارت بھی رکھتے ہوں گے، ان میں خاص تعداد بے روزگار مردو خواتین کی بھی ہو گی، مقامی حکومتیں اگر چاہیں تو ’سوشل فورس“ کے طور پر انکی خدمات سے اپنے اپنے حلقہ کے منصوبہ جات کی بابت راہنمائی لے سکتے ہیں، نیر مالی معاملات میں اِنکی مدد لے کر اپنی اہلیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔اس فورس کو عوامی بیداری،زرعی ترقی، سماجی فلاح کے لئے استعمال کر کے دیہی آبادی میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
زیادہ مناسب ہے کہ یونین کونسل کی سطح پر جمع ہونے والے سارے ٹیکسز،زکوۃ، عشر کا ستر فیصد حصہ اس کی جغرافیائی حدود میں خرچ کیا جائے، اس میں سے بقیہ رقم ضلع، کارپوریشن،اور صوبہ جات کو منتقل ہو جائے، اس طرح ہر حلقہ میں یکساں ترقی سے احسا س محرومی کا بھی خاتمہ ہو گا، شہروں کی جانب ہجرت کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا، اور تعصب کی بنیاد پر نوجواناں قوم کو ورغلانے میں بھی کمی آجائے گی، اگر اراکین پارلیمنٹ اخلاص کے ساتھ مقامی حکومتوں کی ترقی اور ترویج چاہتے ہیں تو انھیں مقامی حکومتوں کے معاملات سے خود کو الگ کر نا ہو گا،خواہ سرکار کسی بھی جماعت کی کیوں نہ ہو۔