نئی دہلی:نریند مودی حکومت ٹوائلٹ کے پیچھے پڑ گئی،بھارت ٹوائلٹس تعمیر کرنے کے جنون میں مبتلا ہے، حکومت 2019 تک کھلے میں رفاع حاجت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 20 بلین ڈالر (15 بلین پاونڈ) مختص کر چکی ہے۔بھارت کے سب سے غریب ترین حصوں میں سے ایک میں، ایک سماجی مہم جو نے پبلک ٹوائلٹ بنانے اور ان کے اخراجات کو جمع ہونے والے فضلے سے ہی پورے کرنے کا چیلنج کو قبول کیا ہے۔
بھارت میں فضلے کی توانائی سے ٹوائلٹس کی تعمیر کا کام شروع
دیہی بھارت میں آدھ ارب سے زیادہ لوگ ٹوائلٹ استعمال نہیں کرتے۔یہ صورتِ حال جو صحت کے مسائل پیدا کرتی ہے سماجی مسائل کو بھی ہوا دیتی ہے جیسے بچوں کا سکول نہ جانا اور عورتوں پر حملے یا ان میں اس وقت حملوں کا ڈر جب وہ فارغ ہونے کے لیے الگ تھلگ یا ویران علاقوں میں جاتی ہیں۔بھارتی ٹی وی کے مطابق سرکاری کوششوں کے ساتھ ساتھ، ایس ایچ آر آئی شری ٹوائلٹ کی ٹیم جیسے سماجی کاروباری ادارے اختراعی تجاویز کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔
ریاستی ٹوائلٹوں میں اکثر اس وقت مشکلیں پیش آ تی ہیں جب جمع فضلے کو نمٹانے، دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کے خرچے چکانے کے مرحلے آتے ہیں۔جمع فضلے کو کہیں پھینکنے کی بجائے شری ٹوائلٹس اسے ایک بائیو ڈائیجیسٹر چینل کو منتقل کر دیتے ہیں۔بائیوڈائیجسٹرٹر سے جو بجلی ملتی ہے اس سے پانی صاف کرنے کا نظام چلتا ہے۔یہ صاف پانی پھر بوتلوں میں بھرا اور نصف روپے فی لیٹر بیچا جاتا ہے اور اس پانی سے ملنے والی رقم ٹوائلٹوں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
چار سال بعد انھوں نے ریاست بہار میں ڈسٹرکٹ سوپاول کے گاوں نموا میں پہلا کمیونٹی ٹوائلٹ بنایا۔ اس میں آٹھ ٹوائلٹ مردوں اور آٹھ ٹوائلٹ عورتوں کے تھے۔یہ ٹوائلٹ صبح چار بجے سے رات دس بجے تک کھلے رہتے ہیں،ٹیم نے اب تک پانچ گاو¿ں میں ٹوائلٹ بنائے ہیں اور ہر گاو¿ں میں روزانہ تقریبا 800 لوگ انھیں استعمال کرتے ہیں۔
کسی بھی گاوں میں ٹوائلٹ بنانے سے پہلے لوگوں میں آگہی کی ایک مہم چلائی جاتی ہے کیوں کہ صحتِ عامہ کے حوالے سے لوگوں کی خود اپنی عادتیں بھی ایک رکاوٹ بن جاتی ہیں جو اس لیے نہیں ہوتیں کہ اس سے پہلے وہاں سہولت ہی نہیں ہوتی بلکہ اکثر ثقافتی ہوتی ہیں۔