مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج

 مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج

پشاور : پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواستیں خارج کر دیں۔ 

پشاور ہائیکورٹ کے 5رکنی بنچ  نے متفقہ طور پر مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواستیں خارج کر دیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5رکنی بنچ کے سامنے 3دن فریقین کے وکلاءنے دلائل دیئے۔ آج سنی اتحاد کونسل کے وکیل برسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔ دوران سماعت  پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ  سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کے آپ نے پی ٹی آئی کا کیس کمزور نہیں کیا؟

پشاور ہائیکورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت جاری ہے،جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ اپیل کی سماعت کررہا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز پیش نہ ہونے پر عدالت سے معذرت کی اور کہا کہ 13 جنوری کو تحریک انصاف سے بلے کا نشان لیا گیا،  بلے کا نشان لئے جانے کے باوجود ہمارے 292 امیدوارآزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے۔قومی اسمبلی کے 86، پنجاب کے 107 ، کے پی کے  90 اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی،الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 104 کے تحت سنی اتحاد کونسل کو نشستیں دینے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمیشن نے ہماری 78 مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ کیس قومی اسمبلی اور کے پی اسمبلی حد تک محدود ہے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان 78 سیٹوں کا ہم فیصلہ کریں گے، الیکشن کمیشن کو 6 درخواستیں موصول ہوئیں کہ سنی اتحاد کونسل حقدار نہیں، پہلا نکتہ سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں، دوسرا سنی اتحاد کونسل نے لسٹ نہیں دی، تیسرا نکتہ یہ کہ سیٹیں اگر ان کو نہیں ملتیں تو ہمیں دے دیں، کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو درخواستیں دیں کہ یہ سیٹیں انہیں دے دیں، درخواستیں دینے والی سیاسی جماعتیں تھیں، درخواست گزاروں نے اپنے لیے سیٹیں مانگ لیں، الیکشن کمیشن نے 2 وجوہات پر فیصلہ دیا کہ سنی اتحاد سیاسی پارٹی نہیں اور لسٹ نہیں دی، الیکشن کمیشن کے ایک رکن نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کی مخالفت کی، 4 نے حمایت کی، سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ پارٹی ہے اور اس کا انتخابی نشان بھی ہے، الیکشن میں حصہ نہ لینا اتنی بڑی بات نہیں، بعض اوقات سیاسی جماعتیں انتخابات سے بائیکاٹ کر سکتی ہیں، سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہو گا؟ 

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلے اس پر بات کر رہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، میں سیاسی جماعت ہوں تو میرے بنیادی آئینی حقوق کیا ہیں؟ آرٹیکل 17 کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر  نے مزید کہا  کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 104کی غلط تشریح کی ہے ،پشاور ہائی کورٹ نے ہماری درخواست سے متعلق 6سوالات اٹھائے تھے۔ پہلے سوال کا جواب یہ کہ سیاسی جماعت وہ جو الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، الیکشن کمیشن کے لسٹ میں جو جماعت شامل ہو گی وہ سیاسی جماعت ہوگی،قانون کی اس تعریف کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے علی ظفر سے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کی تعریف کیا ہے، جس پر  بیرسٹر علی ظفرنے جواب دیا کہ سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ بھی لے سکتی ہے اور بائیکاٹ بھی کرسکتی ہے،ضروری نہیں کہ ہر سیاسی جماعت انتخابی عمل میں حصہ لے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ سیاسی جماعت کےلئے ضروری نہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لے،  جی بالکل ضروری نہیں کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے،سنی اتحاد کونسل کو کوئی بھی سیاسی جماعت کے دائرہ کار سے نہیں نکال سکتا، آرٹیکل 17 سیکشن 2 ملک کے ہر شہری کو سیاسی جماعت میں شمولیت کا حق دیتا ہے۔ 

دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے 1988 کے بینظیر بھٹو کیس کےاقتباسات  کے حوالے دینے شروع کردئے،     اور کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ سیاسی انتخاب میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی سیاسی جماعت رہ سکتی ہے۔ 

آئین کے تحت جنرل نشستوں کے تناظر میں محصوص نشستیں دی جاتی ہیں، آزاد اراکین منتخب ہونے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔

جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ آزاد اراکین نے سنی اتحاد کونسل شمولیت اختیار کی،سنی اتحاد کونسل نے بھی پی ٹی آئی کی طرح الیکشن میں حصہ نہیں لیا،پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل میں صرف نشان کا فرق ہے۔

  بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کے اس ریمارکس پر کہا کہ آپ کا مطلب ہے دونوں سیاسی جماعتیں ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔قانون میں وضاحت کی گئی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں آزاد اراکین کی شمولیت کے بعد محصوص نشستیں دی جا سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ نے جنرل الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں جیتی پھر آپ اپنے آپ کو کیسے سیاسی جماعت کہتے ہیں، جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں واضح کہا گیا ہے کہ جیتنے کے بعد محصوص نشستیں دی جائینگی۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس تذبذب کا شکار ہے کہ سیاسی جماعت اور پارلیمانی جماعت الگ الگ ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوران عدالت سے پانی پینے کی درخواست کی اور کہا کہ مسلسل بولنے سے میرا گلہ خشک ہو جاتا ہے۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے اس بات پت کہا کہ آپ شوال کا کیس رمضان میں لیکر آئے ہیں،آپ مسافر ہیں، آپ پانی پی سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران بیرسٹر علی ظفر نے گلہ تر کرنے کے لئے پانی پیا۔ 

جسٹس عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ آزاد امیدوار اکٹھے ہو جائیں تو کیا انہیں مخصوص نشستیں ملیں گی یا ان کو پارٹی جوائن کرنا ہو گی؟ جس پر برسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ آزاد امیدوار کسی پارٹی کو جوائن کریں گے تو ان کو نشستیں ملیں گی۔ جسٹس  ارشد علی نے کہا کہ آپ کا کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے، پی ٹی آئی نے ان کو جوائن کیا، دونوں پارٹیوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔فرق اتنا تھا کہ پی ٹی ائی کے پاس نشان نہیں سنی اتحاد کونسل کے پاس نشان ہے۔ آپ نے جب سنی اتحاد کونسل جوائن کی اپ کو معلوم تھا کہ اس نے لسٹ نہیں دی۔ 

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مخسوص نشستیں تب ملتی ہیں جب سیاسی جماعتوں نے سیٹ جیتی ہوں، سنی اتحاد کونسل نے کوئی سیٹ نہیں جیتی۔ جس پر برسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب آزاد امید وار نے ان کو جوائن کیا تو یہ ان کے ہو گئے، جس پر عدالت نے کہا کہ قانون میں لفظ سیکیور کا آیا ہے آپ نے سیٹیں سیکیور نہیں کیں۔

جسٹس ارشد علی نےریمارکس دیے کہ آپ نے سیٹ نہیں جیتی تو آزاد امیدوار بھی آپ کو جوائن نہیں کر سکتے۔سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کے آپ نے پی ٹی آئی کا کیس کمزور نہیں کیا؟ پی ٹی آئی تو پھر سیای جماعت تھی، جس پر برسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس نشان نہیں تھا اور سربراہ بھی نہیں تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس وقت تھا آپ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے، جس پر برسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے لیکن ان کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ جسٹس ارشد علی نے مزید کہا کہ آپ نے ایسی پارٹی کو جوائن کیے جس نے الیکشن ہی نہیں لڑے، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے خواد اس پارٹی سے الیکشن نہیں لڑا۔

بر سٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ جوحالات بن گئے ہیں، یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ آئین ایک زندہ کتاب ہے، حالات کے مطابق اس کو دیکھنا پڑتا ہے۔کے پی میں دیکھیں یہاں اکژریت میں یہاں اکثریت کو کیسے مخصوص نشستون سے محروم رکھا جائے۔ یہاں ان کو بھی سیٹ ملی جنہوں نے صرف ایک سیٹ جیتی۔ آئیں کو وقٹ کی ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے۔  

مصنف کے بارے میں