پاکستان میں 1 لاکھ 26ہزار لیٹر پٹرول ماہانہ صرف نیشنل اسمبلی کے نمائندوں کو مفت میں ملتا ہے باقی آپ خود اندازہ لگا لیں تمام صوبائی اسمبلیاں۔۔ سینٹ۔۔نیب۔اور تمام سیاسی اور سرکاری افسران بھی ملکی ناجائز مراعات لے رہے ہیں ۔ملک اس وقت مشکل میں ہے تو کیوں نا سب سے پہلے سرکاری افسران کو ملنے والا مفت پٹرول، گیس، بجلی اور مراعات بند کی جائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔اب جب پٹرول کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں تو کیا سیاستدانوں، ججز اور دیگر کے پٹرول الاؤنسز ختم نہیں کر دینے چاہئیں؟اگر ملک میں 15 ہزار ماہانہ کمانے والا اپنی جیب سے پٹرول خرید سکتا ہے تو لاکھوں روپے تنخواہ لینے والا پٹرول خود کیوں نہیں خریدتا؟؟جتنے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں یا سرکاری نوکر ہیں ان سب کا مفت کا پٹرول بند کیا جائے عوام ٹیکس دے دے کر مر گئی ہے ایک ماچس خریدنے پر بھی ٹیکس دیا جاتا ہے اور یہ عوام کے پیسوں پر مفت کا ہر مہینے کا پٹرول اڑاتے ہیں۔تمام سرکاری نوکروں وزیروں مشیر ہر طرح کے لوگوں کا فری پٹرول، فری گیس اور فری ہائوسنگ بند ہو۔ جن سرکاری گھروں میں یہ لوگ رہتے ہیں ان کا فی مربع گز کے حساب سے کرایہ چارج کیا جائے۔ایسا ہوتا نظر تو نہیں آتا کیوں کہ قانون ساز اسمبلی کیسے چاہے گا کہ ان کی مراعات ختم کر دی جائیں۔ پھر بھی آواز اٹھانے میں کیا حرج ہے۔
واپڈاکے48 ہزارآفیسرز 1 لاکھ 5ہزار
ملازمین سالانہ39کروڑ10لاکھ فری یونٹ اور5 ارب25 کروڑروپے کی سالانہ فری بجلی استعمال کرتے ہیں۔اور عوام اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ کیا وہ تنخواہ نہیں لے رہے؟ دوسری اہم اس مفت کی بجلی کے درپردہ واپڈا ملازمین ماہانہ لاکھوں یونٹ بجلی چوری کرتے ہیں اور اکثر تو چوری شدہ بجلی بیچتے بھی ہیں۔
ایران بے شک پٹرول پیدا کرنے والا ملک ہے مگر اس نے جس طرح ایک منظم نظام کے ذریعے کنٹرول رکھا ہوا ہے، وہ پاکستان میں بھی ایک قابلِ عمل ماڈل ہو سکتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل دوست کی زبانی ذیل میں درج ہے:
ایران میں اگر آپ گاڑی یا موٹر سائیکل خریدتے ہیں تو حکومت اس کے ساتھ آپ کو ایک کارڈ بھی دیتی ہے۔
یہ اے ٹی ایم کارڈ جیسا ہوتا ہے۔ اس میں آپ کو ایک مخصوص مقدار میں پٹرول 1500 تومان (10 روپے) اور دوسرے مخصوص مقدار میں 3000 (20 روپے) تومان میں دیا جاتا ہے۔ اگر آپ زیادہ سفر کرتے ہیں اور یہ مقدار ختم ہو جائے تو پھر آپ کو بغیر سبسڈی کے چھ ہزار تومان پر پٹرول بھرنا ہو گا۔ ہر پٹرول پمپ پر اے ٹی ایم مشین کی طرح یہ کارڈ ریڈر لگا ہوتا ہے۔اس سے یہ ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل چلانے والے غریب آدمی پر کم بوجھ پڑتا ہے؟ وہ پورا مہینہ سبسڈی پر کام چلا لیتا ہے؟ امیر آدمی جو بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک ہیں انہیں اس کارڈ کی سہولت نہیں دی جاتی پٹرول اور ڈیزل کے کارڈ دو قسم کے ہوتے ہیں؛موٹر سائیکل کے کارڈ میں پٹرول کی مقدار کار کی نسبت کم ہوتی ہے۔
دو قیمتیں ہیں؛ 1500 تومان اور 3000 تومان۔ (تومان ایرانی کرنسی کا نام ہے) بڑی بڑی غیرملکی گاڑیوں کو کارڈ نہیں دیا جاتا۔ ان کے مالکان کو بغیرسبسڈی کے پٹرول بھرنا ہوتا ہے۔ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ امیر لوگ ہیں، افورڈ کر سکتے ہیں۔ایران نے بجلی کا بھی ایسا ہی نظام بنا رکھا ہے۔ بجلی کی چار اقسام ہیں جیسے چابہار ایک گرم اور مرطوب شہر ہے۔ یہاں بغیر ایئرکنڈیشنڈ کے زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس لیے چابہار میں بجلی کے نرخ مشہد یا تہران جیسے معتدل شہروں کی نسبت نصف ہیں۔آپ چابہار میں سارا دن تین تین اے سی چلائیں تب بھی آپ کا بجلی کا بل مشہدی شہری کے مقابلے میں آدھا بھی نہ ہو گا۔ تجارتی نرخ زیادہ ہیں لیکن اس میں بھی آب و ہوا کی وجہ سے تفریق کی گئی ہے۔ سردیوں میں گرم خطوں میں گیس کا نرخ بڑھ جاتا ہے جب کہ سرد علاقوں میں گیس کی قیمت گرا دی جاتی ہے تاکہ وہاں ہیٹر چلائے جا سکیں۔
مگر ہمارے حکمران،ہمارے لیڈر،ہمارے وزیر،ہماری بیوروکریسی اور ہمارے پالیسی میکر ہمارا خون نچوڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔روٹی کا آخری نوالہ تک چھیننا انکی زندگی کا مقصد ٹھہر چکا ہے۔۔بقول فرحت عباس شاہ
کبھی سڑکیں تو کبھی ریل مسلط کرکے
کھینچ لیتا ہے لہو ، تیل مسلط کرکے
حاکم وقت تسلسل سے ہمیں مارتا ہے
روز اک اور نیا کھیل مسلط کرکے
پہلے تو دکھ مرے اجناس میں تبدیل کیے
پھر تہی دست کیا سیل مسلط کرکے
کیا ترا اب بھی نہیں دور ہوا خوف بتا
میری فریاد پہ بھی جیل مسلط کرکے
عشق نے رکھے ہیں مفلوج مرے دیدہ و لب
دل کی ہر شاخ پہ اک بیل مسلط کرکے
جوڑیاں عرش پہ جوڑو یا زمیں پر مولا
تونے توڑا ہے ہمیں میل مسلط کرکے