17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخاب ہو رہے ہیں جہاں وفاداریاں تبدیل کرنے والے لوٹوں کا مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدواروں سے ہو گا۔ حیرت کی بات ہے کہ لوٹوں کی سب سے بڑی مخالف اور ان سے ڈسی ہوئی ن لیگ ہی لوٹوں کی حمایت کر رہی ہے اور ایک آدھ کو چھوڑ کر ہر لوٹے کو ان ضمنی انتخابات میں ٹکٹ دیا ہے۔ اس حرکت سے مسلم لیگ ن کے 2018 کے انتخابات میں ان لوٹوں سے شکست کھانے والے امیدواروں کے ساتھ ساتھ ووٹرز بھی پریشان ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ سیاستدانوں کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا اور ہر وقت برائے فروخت ہوتے ہیں جبکہ ان کے فیصلے عوام کے بجائے ذاتی اقتدار کے لیے ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کو الیکشن کی سائنس کا پتہ ہے۔ اب جو چورن مسلم لیگ ن بیچ رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ’’ان‘‘ کی طرف سے دس سیٹوں کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی کو 8 نشستیں ملیں گی اور دو نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے آئیں گی۔ اور مسلم لیگ یہ جھوٹ اس شدت سے بولتی ہے کہ سچ لگے۔ دوسرا ووٹوں کو تتر بتر کرنے کا ہے۔ پی ٹی آئی یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ جن حلقوں میں انتخابات ہو رہے ہیں وہاں کے لاکھوں ووٹ ان کے سابقہ حلقوں سے ہٹا کر دوسرے اضلاع میں ڈال دیے گئے ہیں اور یہ کام الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ازخود کیوں کیا؟ میں اور میرا خاندان خود اس میں متاثرہ فریق ہے اور 2018 کے انتخابات میں بھی میرے خاندان کے ووٹ بھی آبائی ضلع اٹک اور لاہور میں بانٹ دیے گئے تھے۔ گو کہ میں نے اس وقت بھی الیکشن کمیشن کے دفتر میں متعلقہ فارم پر ووٹ اندراج کی درخواست دی تھی لیکن ان ضمنی انتخابات میں بھی ہمارے ووٹ تتر بتر کر دیے گئے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے 25 اراکین کو فلور کراسنگ کے جرم پر ڈی سیٹ کر دیا تھا۔ ان میں سے پانچ مخصوص نشستوں کے امیدوار بھی تھے۔ گو کہ الیکشن کمیشن نے لیت و لعل سے کام لیا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان پانچ امیدواروں کے متبادل کے طور پر تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کو نوٹیفائی کر دیا اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے ان سے حلف بھی لے لیا۔ یاد رہے کہ اس حلف کو پنجاب کی وزارت قانون نے غیر قانونی قرار دے دیا اور شنید ہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مسلم لیگ ان پانچ ووٹوں کو گنتی کے عمل میں حصہ نہ لینے دے گی جبکہ ہاؤس کی کارروائی چلانے والے ڈپٹی سپیکر بھی اپنا وزن مسلم لیگ ن کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں۔
باقی 20 ممبران پنجاب اسمبلی جو براہ راست انتخابات میں منتخب ہو کر لوٹے ہو گئے تھے ان حلقوں میں 17 اگست کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات لاہور کی چار نشستوں پی پی۔158، پی پی۔167، پی پی۔168 اور پی پی 170 راولپنڈی میں پی پی 7، خوشاب پی پی 83، بھکر پی پی 90، فیصل آباد پی پی 97، جھنگ پی پی 124 اور پی پی 127، شیخوپورہ 140، ساہیوال پی پی 202، ملتان پی پی 217، لودھراں پی پی 224 اور پی پی 228، بہاولنگر پی پی 237، مظفر گڑھ پی پی 272 اور پی پی 273، لیہ پی پی 282 اور ڈیرہ غازی خان پی پی 288 میں ہونے جا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر 2018 میں انتخابات جیتنے والے بیس لوٹوں نے جب فلور کراسنگ کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے ووٹ دیے تو ایک عدالتی فیصلے کے بعد ان کو پنجاب اسمبلی کے ان حلقوں سے ڈی سیٹ کر دیا گیا تھا۔ ان میں صغیر احمد، ملک غلام رسول سانگا، سعید اکبر خان نوانی، محمد اجمل چیمہ، فیصل حیات، مہر اسلم، میاں خالد محمود، نذیر چوہان، ملک اسد، امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگریال، محمد سلمان، ذوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، سبطین رضا، محمد طاہر اور محسن عطا کھوسہ شامل ہیں۔ ان میں سے 15 حلقوں کا میں نے سروے کیا اور باقی حلقوں کی معلومات مقامی صحافیوں، ضلعی انتظامیہ، الیکشن مانیٹر کرنے والی این جی اوز اور کچھ سیاسی شخصیات سے لیں۔ مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حالت جیل کی دال سے بھی زیادہ پتلی ہے۔ میرے سروے کے مطابق ان انتخابات کے نتائج پی ٹی آئی 17 اور مسلم لیگ ن کے 3 بنتے ہیں۔ لیکن ’’کرشمہ ساز‘‘ بھی کام کر رہے ہیں اس لیے نتائج مینج بھی کیے جا سکتے ہیں کیونکہ تخت لاہور سٹیک پر ہے۔
محترمہ مریم نواز شریف مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں لیکن انہیں بھی اندازہ ہے کہ عوامی حمایت کی ریت ان کی مٹھی سے تیزی سے نکل رہی ہے اور انکی انتخابی مہم کو عوام کی پذیرائی نہیں مل رہی۔ مریم نواز کے مخالف حلقوں نے نواز شریف کو بھی باور کرا دیا ہے کہ انتخابی مہم اگر صرف مریم نواز کے سپرد رہی تو نتائج مسلم لیگ ن کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آؤٹ آف باکس راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگی قیادت نے انتخابی مہم میں جان ڈالنے کے لیے وفاقی اور صوبائی وزرا سے استعفے لے کر مختلف حلقوں کی انتخابی مہم میں جھونک دیا۔ لیکن اس سب کا بھی خاطر خواہ اثر انتخابی مہم میں نظر نہیں آ رہا۔
اتفاق سے سب سے زیادہ لوٹے لاہور کے حصے میں آئے اسی لیے نواز شریف نے بھی تخت لاہور کی ناک بچانے کے لیے وفاقی وزیر ایاز صادق اور صوبائی وزیر سلمان رفیق سے استعفیٰ لے کر لاہور کی انتخابی مہم میں جوت دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر الیکشن شفاف ہوئے تو لاہور بھی مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے وزیر قانون ملک احمد اور ڈیرہ غازی خان کے وفاقی وزیر اویس لغاری بھی مستعفی ہو کر اپنے امیدوار کی الیکشن مہم میں حصہ لیں گے۔ یہ سب اس بات کی غمازی ہے کہ ضمنی انتخابات اگر شفاف ہوئے تو مسلم لیگ ن کی حالت پتلی ہے۔ لیکن جو حالات ہیں شاید استعفوں کا تعویز بھی کام نہ آئے۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف ایک اور داؤ آزمانے جا رہے ہیں اور وہ یہ کہ ضمنی انتخابات سے چند دن پہلے پٹرولیم مصنوعات میں کمی کا اعلان کیا جائے گا۔ عالمی مارکیٹ میں تو تیل کی قیمتیں گزشتہ بیس دنوں سے کم ہو رہی ہیں لیکن اس وقت ان قیمتوں میں کمی کا خیال نہیں آیا اور اب اسے الیکشن سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ایک ماہ میں پٹرول سو روپے مہنگا کرنے والی حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات میں یہ کمی بھی عارضی ہو گی۔
مریم نواز کو پی ٹی آئی کے علاوہ ایک مزاحمت پارٹی کے اندر سے بھی ہے۔ مریم نواز گروپ کچھ وفاقی اور صوبائی وزرا کے مستعفی ہونے اور انتخابی مہم میں حصہ لینے کا قطعاً حامی نہ تھا ان کا خیال تھا کہ ایسا کر کے مریم نواز کا قد چھوٹا کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا مخالف دھڑا خوش ہے کہ اب کریڈٹ صرف مریم نواز کو جانے کے بجائے تقسیم ہو گا۔ اس کے علاوہ انہیں اس انتخابی مہم میں مسلم لیگ کے پرانے ٹکٹ ہولڈرز کی بھی مزاحمت کا سامنا ہے جو کسی صورت نہ چاہیں گے کہ ایک وقت میں ان کے مخالف انتخابات جیت کر ان پر ہمیشہ کے لیے مسلط ہو جائیں۔ گو کہ ان بیس حلقوں میں پرانے ٹکٹ ہولڈرز کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 2023 کے انتخابات میں ان لوٹوں کے بجائے آپ کو ہی ترجیح دی جائے گی لیکن کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ اس یقین دہانی سے لوٹے امیدوار بھی مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ ان کے حلقوں میں مسلم لیگ ن کی مقامی تنظیم بھی انہیں منہ نہیں لگا رہی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے حامی صحافی جو پچھلے دور حکومت میں پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے حکم پر وائس چیئرمین بھی تھے نے ان ضمنی انتخابات کے بارے میں ایک ٹویٹ بھی کیا تھا جس میں پی ٹی آئی کو 86 فیصد اور مسلم لیگ ن کو صرف 14 فیصد ووٹ ملنے کی امید ظاہر کی تھی۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو گا اگر الیکشن شفاف ہوئے تو ورنہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔