سب یہی کہتے رہے کہ سی پیک پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے لیکن ماضی کی حکومت کی غلط پالیسیوں یا جان بوجھ کر اٹھائے گئے اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ سی پیک کی رفتار کم پڑ گئی اور پاکستان اس کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکا۔ سی پیک کے سست ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دہشت گرد گروہ چین کے شہریوں اور سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے ماہرین کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے یقینی کی فضا نے بھی اس کی رفتار کو سست کیا اور امن و امان اور حکومت کی عدم دلچسپی کو بہانہ بنا کر چینی ماہرین ایک ایک کر کے واپس چلے گئے۔ چین کے بغیر ہم سی پیک کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے سو کام کی رفتار سست روی کا شکار ہو گئی۔ حال ہی میں انسداد دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہوئی ہیں اس کے بعد یہ لگ رہا ہے کہ چین کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے اور گزشتہ سال اپریل سے سی پیک کے حوالے سے جاری جمود ٹوٹنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ یہ حوصلہ افزا پیش رفت ہے کہ مین لائن ون جسے ایم ایل ون کا نام دیا جاتا ہے اس کی اپ گریڈیشن کا عمل دوبارہ سے شروع ہوا ہے۔ یہ چین کے پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ کا سب سے اہم حصہ ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں چین کے ماہرین پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے اپنے منصوبوں میں تعطل پیدا کر دیا۔ کراچی میں ہونے والے اس حملے میں تین چینی انجینئر ہلاک ہو گئے تھے۔ چین کی یہ تشویش جائز تھی کہ پاکستان کی سرزمین پر اس کے شہریوں کو اس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چین نے اس حملے کے بعد پاکستان میں اپنے تمام منصوبوں پر کام روک دیا تھا اور پاکستان کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ جب تک اس حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا وہ پاکستان میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔ صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف نے خود بیجنگ کا دورہ کیا اور چین کی اعلیٰ قیادت کو چینی ماہرین کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کا یقین دلایا۔حال ہی میں پاکستان کے سلامتی کے اداروں نے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے نیٹ
ورک کو توڑا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو دہشت گرد گروہ ملک میں کام کر رہے ہیں ان کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ان گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں چینی تفتیش کار بھی شریک تھے۔ یہ ایک طرح سے چین کا اعتماد جیتنے کی کوشش ہے۔ چین جو پاکستان کا دیرینہ دوست ہے وہ اب پاکستان پر اندھا اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیا آنے والے دنوں میں پاکستان اور چین کے درمیان اسی طرح کا اشتراک دیکھنے میں آئے گا اس پر بعض حلقوں میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ چین کو پاکستان میں اس حد تک مداخلت کی اجازت دی جا رہی ہے۔
بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ چین ان منصوبوں پر اپنے کام کا دوبارہ سے آغاز کرنے جا رہا ہے جو گزشتہ برس سے رکے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان پر چین کے اعتماد کی علامت ہے اور پاکستان کی حکومت کو اس اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ چین کے شہریوں اور ماہرین پر آئندہ کوئی حملہ نہ ہو۔ سی پیک دونوں ملکوں کے لیے اہم ہے اور ہمیں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ چین کے ساتھ جو معاہدے ہو رہے ہیں ان میں شفافیت کا عنصر ضرور موجود ہو۔ جب شفافیت آئے گی تو کام کی رفتار بھی تیز ہو جائے گی اور سی پیک کے منصوبے عوام کی توجہ کا مرکز بھی بنیں گے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کے منصوبے بند کمروں میں بیٹھ کر بنائے جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ ماہ چین کا جو دورہ کیا اس میں دونوں ملکوں کے درمیان اہم معاہدہ بھی ہوا تھا اور اس معاہدے کے نتیجہ میں پاکستان اور چین دونوں تربیت، ٹیکنالوجی اور انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں ایک دوسرے سے تعاون کو یقینی بنائیں گے یوں چین پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست شریک ہو گیا ہے۔ چین اور پاکستان کی اس قربت نے بھارت کو بے چین کر دیا ہے کہ بھارت اور اس کی سپانسر شدہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ علاقائی سلامتی اور پاک و چین کو درپیش مسائل پر بھی ایک دوسرے سے تعاون کو مزید بڑھایا جائے گا۔ اس دورے سے قبل چین کے ایک وفد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یہاں یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ سی پیک اور پاکستان اور چین کے درمیان شروع ہونے والے میگا پراجیکٹس کے حوالے سے افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے کی وجہ سے خطرات زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ چینی وفد کے سربراہ نے اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہیں اور غلط معلومات کا مقصد ترقی کی رفتار کو کم کرنا اور ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں سی پیک کو ایک گیم چینجر کے طور پر جانا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل ہونے سے خطے میں پاکستان اور چین دونوں کا اثر و نفوذ بڑھے گا۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے بعض حلقے دو پہلوؤں پر تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں پہلا خدشہ سی پیک کے منصوبوں میں شفافیت کی کمی بتائی جاتی ہے اور دوسرا کوئلے پر چلائے جانے والے بجلی گھروں کی وجہ سے ماحول متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت پاکستان کو لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے اور خاص طور پر ان حالات میں جب یہ پروپیگنڈہ عروج پر ہو کہ چین پاکستان کو قرضوں میں جکڑ دے گا اور پاکستان کے تمام قیمتی اثاثے چین کو گروی رکھ دیے گئے ہیں۔
چین کی انٹیلی جنس کے تجربات، تربیت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے مگر اسے براہ راست پاکستان میں کارروائیوں میں شریک ہونے پر لوگوں کے تحفظات موجود ہیں اور انہیں دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا چین کے لیے اور اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہماری پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ امید ہے کہ چین ہماری مشکلات اور مجبوریوں کو سمجھ کر قدم بڑھائے گا اور سی پیک کے منصوبے جلد از جلد مکمل ہوں گے۔