پہلے تو کالم کے عنوان ’’خدا اور سرمایہ دار‘‘ کے حوالے سے عرض کر دوں کہ معروف مذہبی سکالر غلام احمد پرویزؔ مرحوم کے ان مقالات کا مجموعہ ہے جو 60 اور 70 کی دہائیوں میں اس وقت لکھے گئے جب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کی بحث عروج پر تھی اور جس کی بنیاد پر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ پرویزؔ صاحب نے اپنے مقالات میں سرمایہ دارانہ نظام کی اصل بنیاد اور اشتراکی نظام کے فلسفے اور معاشی نظام کا تجزیہ کر کے ان کا تقابلی مطالعہ کیا اور اس کے بعد شرح و بسط سے بتایا کہ قرآنِ کریم کون سا فلسفہ زندگی اور کس قسم کے معاشی اصول بیان کرتا ہے۔ معاشی ہائے نظام پر لکھے گئے ان مقالات کے علاوہ اس موضوع پر ان کی ایک مکمل کتاب ’’نظامِ ربوبیت‘‘ خاصے کی چیز ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا ایک تجربہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ مئی 2009ء کی بات ہے۔ مجھے لاہور ریلوے سٹیشن سے گلبرگ میں ایک نجی کمپنی کے دفتر جانا تھا۔ میں نے ایک رکشہ ڈرائیور سے کرایہ پوچھا؟ اُس نے جو کرایہ بتایا وہ سفر کی طوالت کے لحاظ سے زیادہ تھا۔ میں نے زیادہ کرائے کا سبب پوچھا؟ تو رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ ایک عرصے سے مال روڈ پر ٹو سٹروک رکشہ ممنوع ہو چکا ہے، آگے سے گھوم کر جانا ہو گا۔ مجھے جواب معقول لگا اور میں رکشے میں بیٹھ گیا۔ گلبرگ کی ایک مصروف سڑک پر جب رکشہ ایک ٹریفک اشارے پر رُکا تو ڈرائیور اچانک بڑبڑانے لگا ’’جلد لاہور کی شامت آنے والی ہے، یہ بلند عمارتیں، یہ نئی اور چمکتی دمکتی گاڑیوں سے پُر شاہراہیں، یہ بڑے بڑے شو روم تباہ و برباد ہونے والے ہیں ان سب کو غریبوں کی آہ لے ڈوبے گی‘‘۔ میں نے ازراہ مذاق کہا کہ جناب یہ سب ان کی دن رات کی محنتوں کا ثمر ہے۔ تو اُس نے جواباً کہا کہ کیا ہم لوگ چوریاں کر رہے ہیں، ہمارے آباء و اجداد بھی محنت کرتے تھے، ہم بھی دن رات یہاں سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ جانے کون سی محنت کرتے ہیں؟ ایک
ہماری محنت ہے جس کے نتیجے میں ہمیں اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے نہ ڈھنگ کا کپڑا پہننے کو ملتا ہے، بیماری کی صورت میں اچھا علاج کرا سکتے ہیں نہ بچوں کو تعلیم دلا سکتے ہیں۔ جب کہ ان کی محنت عجب ہے، یہ بڑے بڑے مکانات، ہر گھر میں تین تین چار چار گاڑیاں، ان کے گھروں میں بچہ بعد میں پیدا ہوتا ہے اور اُس کے لیے گاڑی پہلے سے بُک ہو جاتی ہے۔ اِن لوگوں کی محنت کی سمجھ نہیں آتی۔ ہمارے حکمران جن کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کے تمام افراد کو بِلا تفریق سہولیات فراہم کریں، انہیں تو صرف وہ سبق یاد ہیں جو اِن کے فائدے کے ہیں، عوام کی کسی کو کوئی فِکر نہیں۔ بیمار، بوڑھے، عورتیں اور بچے گرمی سے بلبلا رہے ہیں، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے عفریت نے عوام کو جکڑ رکھا ہے۔ دوسری جانب ہمارے حکمران اور اُمراء ہیں جو عوام کے خون پسینے سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں۔ عوام کی اس حالت پر حکمرانوں اور اربابِ اختیار کو خدا کے غضب سے ڈرنا چاہیے۔ رکشہ ڈرائیور جذبات میں نہ جانے کیا کیا بول رہا تھا، لیکن اس کی باتوں سے ہمارے معاشرے کے معاشی اور سماجی بے انصافی کے گھناؤنے روپ بے نقاب ہو رہے تھے۔ اس کی باتیں سُن کر مجھے گلستان سعدی کی دو حکایات یاد آ گئیں۔ ’’بغداد میں ایک مقبول الدعا بزرگ آ نکلا۔ حجاج بن یوسف کو اطلاع دی گئی۔ اُس نے درویش کو بُلایا اور کہا کہ میرے حق میں دعائے خیر کیجئے۔ درویش کہنے لگا، اے خدا! اس کی جان لے لے، حجاج نے کہا خدا کے لیے ذرا سوچو تو سہی یہ کیسی دعا ہے؟ درویش نے کہا کہ تمہارے بلکہ سارے مسلمانوں کے حق میں یہی دعا بہتر ہے۔ اسی طرح ایک اور حکایت کہ ایک بے انصاف بادشاہ نے کسی پارسا سے پوچھا کہ عبادتوں میں سب سے افضل عبادت کون سی ہے، اس نے جواب دیا، تیرا دوپہر کو سو جانا، تاکہ کم از کم ان چند لمحات میں تو خلقِ خدا کو نہ ستائے‘‘۔
یہ معاشرے کے صرف ایک فرد کے جذبات نہیں ہیں، بلکہ یہ آج بھی پاکستان تقریباً 95فیصد طبقے کی آواز ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی دن رات کی محنت کے عوض فقط اتنا ہی کما پاتے ہیں کہ جس سے اپنے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ حکومت کہاں ہیں؟ اُن نعروں کی عملی تعبیر کہاں ہے؟ جو نعرے ہمارے جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار سماجی خدمت کا لبادہ اُوڑھے لگاتے ہیں کیوں کہ یہ ووٹ اور حکمرانی پر اپنا زبردستی کا حق سمجھتے ہیں۔
ہمارے حکمران اور وسائل و اختیار پر قابض طبقے اُس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو ہر ستم کو انصاف اور ہر ظُلم کو مصلحت کا تمغہ عطا کرتے ہیں۔ منافع خوروں، چوروں اور سمگلروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، مگر غریب جو ہر انتخابات میں اِن کے وعدوں کا اعتبار کر کے ووٹ دیتے ہیں، وہ ان کی وفا اور توجہ کے طلب گار رہتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ کیا ہے؟ کیا یہاں وسائل نہیں ہیں؟ قدرت کے انمول خزانے نہیں؟ کیا یہاں محنت کرنے والے نہیں؟ یہاں سب کچھ ہے اگر فقدان ہے تو وہ عوام کے حقیقی نمائندوںکا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے بدخواہوں نے ناکام ریاست کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس حوالے سے فرزندِ اقبالؔ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا ہے تھا کہ ’’پاکستان ناکام ریاست نہیں بلکہ اس کی قیادت ناکام نسل کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اول دن سے قوم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ نواب، سردار، خان، وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور ہر دو قسم کی بیوروکریسی عوام کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر غور فرمائیں کہ یہاں کن طبقات کی اجارہ داری ہے؟ قرآنِ مجید نے فرعون، ہامان اور قارون کی شکل میں تین کرداروں کا بتایا ہے، فرعون ملوکیت کا مجموعہ، ہامان مذہبی پیشوائیت کا نمائندہ اور قارون نظامِ سرمایہ داری کی ہوس اور حِرص کا پیکر۔ قرآنِ حکیم کے بتائے گئے ان کرداروں کی روشنی میں اپنے سیاسی نظام اور وسائل و اختیارات پر قابض طبقات پر غور فرمائیں تو قرآن حکیم کے یہ کردار آج بھی اپنی چیرہ دستیوں کے ساتھ ہمیں اپنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے لیے ضروری ہے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سیاست اور معیشت پر قائم تسلط توڑا جائے۔