اصلاح کا عمل دراصل صلح جوئی کا عمل ہے۔ انسان کی اپنے ساتھ صلح ہو جائے تو سمجھ لیں اِس کی اصلاح ہوگئی، اور جس کی اصلاح ہو گئی وہ اصلاح کرنے کے قابل ہو گیا۔ جس کی اپنے ساتھ صلح ہو جاتی ہے‘ وہ باہر جھگڑا نہیں کرتا۔ باہر کا جھگڑاختم کرنے کیلئے ہمیں اپنے اندر کا جھگڑا ختم کرنا ہوتا ہے۔ اندر سے صلح پر آمادہ شخص ہی باہر کسی صلح نامے پر دستخط کرتا ہے۔ ضدی انسان اپنے اندر کے جھگڑے میں کہیں گِھر چکا ہوتا ہے، اس لیے وہ صلح کے گَھر میں قدم رکھنے سے گھبراتا ہے۔ صلح کی زمین پر ایک بہادر انسان ہی قدم رکھتا ہے۔ بزدل انسان اپنے مال اور مفاد کو بچانے میں اس قدر مصروف ہوتا ہے کہ وہ کسی کی طرف صلح کا ہاتھ نہیں بڑھاتا، مبادا اِسے اپنے مال اور مفاد میں سے کچھ قربان کرنا پڑجائے۔ دنیائے کاروبار میں دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے کاروبار اُس وقت بڑھتے ہیں جب کاروباری حریف حلیف بن جاتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اشتراکِ عمل سے اُن کے کاروبار میں وسعت آ جاتی ہے، کاروبارِ گلشن میں بھی یہی کلیہ کارفرما ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنے مفادات کے خزانے پر سانپ بن کر پہرہ نہ دیں‘ خزانے انسانوں کے لیے ہوتے ہیں۔ چاہیے کہ ہم آج اپنے مال اور مفاد کا اشتراک کریں، تاکہ ہمارا کل خوشیوں کے خزانوں سے بھر جائے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اشتراکِ عمل سے کوئی کتنا فائدہ لے گیا، بلکہ دیکھنا صرف یہ چاہیے کہ ہم بھی فائدہ میں رہے۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں فراخ دل ہی کسی فائدہ مند امکان تک پہنچتا ہے۔ اشتراکِ مفادات جس طرح ہمارے معاشی بندھنوں کو مضبوط کرتا ہے، اس طرح اشتراکِ جذبات ہمارے جذباتی رشتوں کو ایک مٹھی میں باندھ دیتا ہے۔ جس کے دکھ سکھ میں ہم نے سانجھ کی ہوتی ہے وہی ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی ہوتا ہے۔ سمجھوتا کرنے والا بہت سمجھ دار ہوتا ہے۔ تعلقات کے نرم گرم دھاگے ہمارے زندگی میں جمالیات کی کشیدہ کاری کرتے ہیں، تعلق کا کوئی دھاگا ٹوٹ جائے‘ اُکھڑ جائے تو کشیدہ کاری کا پھول بکھر جاتا ہے۔ ”جیو اور جینے دو“ کا اصول ہی اصولِ زرّیں ہے۔
حیرت ہے‘ کچھ لوگ اصلاح کے لیے مارکٹائی اور تشدد کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں شاید باہر سے قائم کی گئی دہشت انسان کو مائل بہ اصلاح کر دے گی۔ کیا ایک خوف زدہ انسان قابلِ اعتبار ہوتا ہے؟ کیا خوف کا مارا ہوا اصلاح کے حوالے سے قابلِ تقلید ہوتا ہے؟ کیا طاقت اصلاح کر سکتی ہے؟ طاقت صرف سزا دے سکتی ہے، لازم نہیں کہ سزا یافتہ اصلاح یافتہ بھی ہو۔ طاقت مرعوب کر سکتی ہے‘ قائل نہیں کر سکتی ہے۔ طاقت گھائل کر سکتی ہے‘ مائل نہیں کر سکتی۔ یہاں جزا و سزا اور قانون کی عملداری کے بارے میں بات نہیں ہو رہی، جرم کی سزا طے شدہ ہے اور قانون کا کوڑا اس لیے برستا ہے اور برسنا چاہیے کہ شرپسندوں کے شر سے معصوم صفت انسانوں کا محفوظ رکھا جا سکے۔ یہاں بات اصلاحِ احوال کے حوالے سے ہو رہی ہے۔
حیرت دَر حیرت یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے پرتشدد راستے کیلئے اِس دین کا نام استعمال کرتے ہیں جو سراسر رحمت ہے بلکہ عطائے رحمت اللعالمینؐ ہے۔ رب العالمین نے اپنے محبوب کو رحمت اللعالمینؐ بنا کر بھیجا۔ تمام جہانوں کے لیے رحمت بننے والی ہستی سب کے لیے سایہئ رحمت ہے۔ کالی کملی اتنی بڑی ہے، اتنی بڑی ہے کہ کل عالمین کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ تمام انبیا و رسل آپؐ کی اُمت ہیں، اور تمام اُمتیں بھی اس طرح آپؐ ہی کی اُمت ہیں۔ تمام زمانے آپؐ کے زمانے ہیں۔ اُمت ِ مسلم تسلیم کرنے والی اُمت ہے، باقی اُمتیں ابھی راہِ تحقیق و تلاش میں ہیں، لیکن وہ تلاشِ حق میں بالآخر آپؐ ہی کو پناہ گاہ پائیں گی۔ ہندی بولنے والے آپ کو جگت گرو کہتے ہیں، یعنی تمام جگ کے گرو، رہبر، ہادی!!! آپؐ کا لایا ہوا دین‘اسلام ہے، اِسلام سلامتی سے ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کا مطلب سلامتی میں داخل ہونا ہے، سلامتی کے گھر میں بدامنی پھیلانے والا اسلام کا دوست نہیں۔
سلامتی کے گھر میں داخل ہونے والا سلامتی کی دعوت دے گا۔ سلامتی والا دین جنگ اور جھگڑا کرنے والوں سے تنگ ہے۔ ماضی میں جنگیں مسلمانوں نے کی ہیں‘ اسلام نے نہیں۔ جب اسلام قبول کرنے والے ایک جماعت اور ریاست کی صورت میں جمع ہوگئے تو جماعت اور ریاست کو بچانے کیلئے شرپسندوں کی مسلط کردہ جنگیں جھیلنا پڑیں۔ سلامتی کے دین میں پھرجنگوں کے اصول بھی وضع کر دیے گئے۔ اسلام وہ دین ہے جو جنگوں کے بھی اصول مرتب کرتا ہے، یعنی جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز نہیں۔ سرکارِ دوعالم رحمت اللعالمین ؐکا حکم ہے کہ جنگ کی تمنا نہ کرو، جنگ میں پہل نہ کرو، لیکن اگر جنگ تم پر مسلط کر دی جائے تو بھرپور مقابلہ کرو، اور جوان مردی سے لڑو۔ جنگ فتنے کی سرکوبی کے لیے ہے۔ حکم ہے کہ
جنگ کے دوران میں درخت نہیں گرائے جائیں گے، کھلیان نہیں جلائے جائیں گے، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا، دشمن قوم کی عبادت گاہوں کو مسمار نہیں کیا جائے گا، جو ہتھیار ڈال دے اسے قتل نہیں کیا جائے گا، جو اپنی عبادت گاہوں میں پناہ لے لے‘ اُس کی پناہ گاہ کا احترام کیا جائے گا، الغرض جنگ صرف فتنہ ختم ہونے تک ہے۔ اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم جارحیت بپا کرنے کے لیے نہیں‘ بلکہ جارحیت سے بچنے کے لیے ہے، مبادا کوئی شرپسند قوم جنگ مسلط نہ کر دے۔ مزید برآں یہ کہ اس حکم کے ذریعے اسباب کے جہان میں مظلوموں کی داد رسی کے لیے ایک سبب پیدا کیا گیا ہے۔ فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبہ کا پڑاؤ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔
جس دین کا کلیہ”لاکراہ فی الدین“ (دین میں کوئی جبر نہیں) ہے، اس دین کی دعوت بالجبر کیسے دی جاسکتی ہے؟ جس دین کا کلیہ ”لکم دینکم ولی دین“ ہے‘ وہ دعوتِ دین کے معاملے میں یقیناً ایک الگ مزاج اور نزاکت رکھتا ہے۔ ایک طالب علم کا سوال تھا کہ اسلام بین المذاہب امن اور ہم آہنگی کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے۔ہم تو حکم ماننے والوں میں ہیں، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اہل کفر کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا مت کہو، کہیں یہ تمہارے سچے خدا کو جواب میں برا نہ کہیں۔ اس بین حکم کی موجودگی میں بین المذاہب امن اور ہم آہنگی کے باب میں اسلام کا کردار واضح ہو جاتا ہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب فرعون کے پاس جاؤ تو اس سے نرم لہجے میں بات کرنا۔ سبحان اللہ! ایک باغی قوت اور دشمنِ دین و ایماں کی طرف ایک جلیل القدر کلیم اللہ صفت پیغمبر کو بھیجا جا رہا اور نرم لہجے میں بات کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ باقی دشمنانِ دین تو فرعون سے کم درجے کے ہوں گے، اِن سے بات کرنے کا کیا اسلوب ہونا چاہیے؟ بات طے ہے …… نرم لہجہ اور حکمت سے پُر بات کافی ہے، کسی پر سنگ و خشت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ دین کی فصل بونے کے لیے نرم دل کی ضرورت ہوتی ہے، اور دل کی نرمی کا تعلق زبان کی نرمی کے ساتھ ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے”حضورِ اکرمؐ کو کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ ہم پر فرض ہے کہ حضورِ اکرم ؐ کا اندازِ رحمت سب مخلوق تک پہنچائیں، اسلام خود ہی پہنچ جائے گا۔ دُنیا کو جب رات کی تاریکی کے بعد روشنی میسّر آتی ہے تو اُس کی نظریں خود بخود سورج کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ سورج کا دِین روشنی ہے‘اپنے آپ کو منوانا نہیں“۔