ابھی بجٹ کو پاس ہوئے دو ہفتے ہوئے ہیں کہ مہنگائی نے گویا غریب آدمی کی جان نکال لی ہے۔ قریباً ہر استعمال کی ضروری چیز کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ حکومت نے تو کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا اور حتیٰ المقدور کوشش کی ہے کہ عوام پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے اس کے باوجود اشیائے خورونوش دس سے بیس روپے تک مہنگی کر دی گئی ہیں۔
اس صورت حال پر حزب اختلاف ایک بار پھر واویلا کر رہی ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے اسے لوگوں کا کوئی خیال نہیں۔ ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کے در پے ہے اور اسے صرف آئی ایم ایف کی قسطوں کی فکر ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ وہ یہ بھی بتائے کہ کیا اس کے دور اقتدار میں عوام سکھ کا سانس لے رہے تھے انہیں کھانے پینے کی چیزوں تک آسانی سے رسائی تھی۔ کیا قبضہ گروپس کمیشن خور مافیا، ملاوٹیے، ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز اور سینہ زور دندناتے نہیں پھرتے تھے۔ عوام کو اب تک کوئی حکومت بھی مثالی سہولتیں اور آسانیاں فراہم نہیں کر سکی۔ حکومتی حلقوں کے مطابق یہ تسلسل ہے گزشتہ حکومتوں کا کہ جن کے عرصہ اقتدار میں مافیاز نے جنم لیا اور وہ مضبو ط سے مضبوط تر ہوتے گئے اور اب حکومتی پالیسیوں کی سینہ تان کر مخالفت کر رہے ہیں۔ جب انہیں پوچھا جاتا ہے تو وہ بپھر جاتے ہیں یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اسی طرح معاملات کو دیکھے گی نہیں اسے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ عوام کو اعتماد میں لے انہیں بتائے کہ اصل صورت حال یہ ہے لہٰذا اسے ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ آج جو وزیراعظم عمران خان کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اس میں کمی واقع ہو گی کیونکہ یہ درست ہے کہ حکومت مہنگائی ایک فیصد کرتی ہے تو مافیاز اس میں چار پانچ گنا اضافہ کر دیتے ہیں مگر غصہ حکومت پر نکلتا ہے۔ ایک طرح سے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کہ جب حکومت کے پاس سرکاری مشینری موجود ہے تو وہ کیوں اس کا سدباب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ اسے تو قانون کو حرکت میں لا کر عوام بیزار عناصر کو ناکوں چنے چبوانے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ اب بھی وہ سخت فیصلے کرتی ہے اور اپنی گرفت مضبوط بناتی ہے تو عوام اس کی تین سالہ سستی کو بھلا دیں گے کہ یہ عوام بڑے کشادہ دل ہیں غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ اب پی ٹی آئی کی یہ حکومت ایسے فیصلے کرنے جا رہی ہے جو عوام کو براہ راست فائدہ پہنچاتے ہوں اور وہ ان پر عمل درآمد کرانے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔
چند روز پہلے پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے ”قلم دوست“ جو کالم نگاروں کا ایک گروپ ہے کو برنچ پر مدعو کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی ایک صفحے پر ہیں لہٰذا آنے والے دو برس میں عوام کی تمام شکایت کا ازالہ ہو جائے گا انہیں جو تکالیف عوام بیزار افراد اور گروہوں کی طرف سے اٹھانا پڑی ہیں سب دور ہو جائیں گی۔ وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے حال ہی میں کیلیفورنیا کے ساتھ زراعت کے حوالے سے ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں جس سے وطن عزیز کے فصلات کے ضمن میں بے پناہ فائدہ ہو گا کیونکہ اس وقت کیلیفورنیا کی زرعی ٹیکنالوجی پوری دنیا میں جدید ترین تصور کی جاتی ہے جس سے پیداوار میں بہت اضافہ ہوا ہے کسانوں کی زندگی میں واضح طور سے مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری زراعت ابھی جدید ترین مشینری سے محروم ہے اور تجرباتی اعتبار سے بھی بہت پیچھے ہے لہٰذا اگر کیلیفورنیا کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو یقینا ملک میں سبز انقلاب برپا ہو جائے گا اور پھر ہمیں خود کفالت کی منزل تک پہنچنے میں بڑی آسانی ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ صاف پینے کے پانی کو سوفیصد ممکن بنانے کے لیے بہت سنجیدہ ہیں۔ پچھلی حکومت کے دور میں بھی وہ اس حوالے سے اقدامات کر رہے تھے مگر بدقسمتی سے ان میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اب وہ تیزی سے اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور دسمبر تک 5.7 ملین افراد کو صاف پینے کا پانی مہیا کر دیاجائے گا۔ ظاہر ہے اس کا ہماری قومی صحت پر خوشگوار اثر پڑے گا اور پھر مجموعی کارکردگی بھی بہتر ہو سکے گی۔
افغانستان کی صورت حال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس میں کسی گروپ کے ساتھ نہیں کھڑے۔ وہ صرف اور صرف امن کے ساتھ ہیں اور اس کے ساتھ رہیں گے۔ دورہ امریکا سے متعلق وہ کہہ رہے تھے کہ امریکی عہدیداروں کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جو کامیاب رہی ہیں انہیں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں بارے بتایا گیا اس پر انہوں نے پاکستان کے کردار کو سراہا۔
ایک سوال کے جواب میں گورنر چوہدری محمد سرور نے کہا کہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ آج بھارت سفارتی محاذ پر تنہا ہو چکا ہے۔ ان کے ساتھ ملاقات میں یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک درویش صفت انسان ہیں پسے ہوئے طبقے کے لیے اپنے تئیں جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں تعلیم اور صحت ان کے نزدیک لازم و ملزوم ہیں۔ عوامی فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے لیے جس طرح چوہدری محمد سرور کوشاں ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ کے لیے حکومتی کارکردگی بہتر نظر آئے گی اور اس کا فائدہ اسے عام انتخابات میں ہو گا۔
بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ اگلے دو برس میں وہ تبدیلی آتی ہے جس کا وعدہ وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ حکومت ایسے فیصلے کرنے جا رہی ہے جو براہ راست عوام کو فائدہ پہنچاتے ہوں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اس تکلیف دہ منظر کے تبدیل ہونے کا غالب امکان ہے کیونکہ عمران خان بنیادی طور سے عوامی ہیں اگرچہ ان کے بعض ساتھیوں پر بدعنوانی کے الزامات ہیں جنہیں حزب اختلاف اپنے جلسوں اور بیانات میں خوب اچھال رہی مگر وزیراعظم کہتے ہیں کہ تفتیش و تحقیق ہونی چاہیے وہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے مگر ہمارے متعلقہ ادارے زیادہ فعال نہیں بتائے جا رہے وہ کچھوے کی چال چلتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں شاید یہ ٹھیک ہو کیونکہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہونی چاہیے خیر جتنا پروپیگنڈا حکومت مخالف حلقوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے کہ وہ یہ ہے وہ ہے اسے حکمرانی کا ڈھنگ نہیں آتا وہ اس کے لائق ہی نہیں مبالغہ ہے۔ اس نے اب تک جو بنیادی مسائل تھے انہیں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو ایک طرف کرتے ہوئے عوامی مفاد کے منصوبوں پر توجہ دینے کا آغاز کیا ہے جس کے لازمی مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ کسانوں کے لیے اچھے پیکیج لائے جا رہے ہیں۔ انہیں مزید سہولتیں دی جا رہی ہیں اگر یہاں جدید ٹیکنالوجی آجاتی ہے تو پھر ہمارا کسان خوشحال ہو جائے گا۔ اسی طرح محنت کشوں اور سرکاری ملازمین کو بھی ریلیف دیئے جا رہے ہیں مگر یہ جو مہنگائی کا اژدھا ہے مسلسل پھنکارے جا رہا ہے۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہو گی کیونکہ اس کے منفی اثرات غریب آدمی پر بہت گہرے مرتب ہو رہے ہیں اور غریبوں کی تعداد معمولی نہیں غیر معمولی ہے لہٰذا اب جب بیورو کریسی اس سے بھرپور تعاون کر رہی ہے تو اس سے اس کی استعداد کے مطابق کام لیا جائے تو یقینا تبدیلی کی سمت قدم بڑھنے لگیں گے یہاں ہم یہ بھی عرض کر دیں کہ پنجاب کے گورنر جو عوامی بھلائی کے لیے سرگرداں ہیں کو مزید اختیارات دے دیئے جائیں تا کہ وہ ایسے فلاحی منصوبے شروع کر سکیں جو تھوڑے عرصے میں پایہئ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں اور عوام کو سکھ دے سکتے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ مسائل نے اگرچہ عوام کی مت مار دی ہے مگر امید رکھنی چاہیے کہ حالت موجود اسی طرح برقرار نہیں رہ سکتی یہ ضرور بدلے گی کیونکہ اب حکومت کے نزدیک ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کا نہیں متحرک ہونے کا وقت ہے لہٰذا زندگی لوگوں کی بہتر ہونے کا قوی امکان ہے۔