بھارت نے فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا جس کے بعد رافیل طیاروں کی پہلی کھیپ بھارت کو حال ہی میں موصول ہوئی لیکن رافیل طیاروں کے بھارت پہنچتے ہی بھارت اور فرانس کے درمیان اربوں ڈالر کے اس معاہدے میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوگیا جس پر نہ صرف بھارت میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں بلکہ فرانس کی عدالت نے بھی اس معاملے کا سخت نوٹس لے لیا ہے۔ تاہم بھارت کا اسلحے کی خریداری کے حوالے سے ٹریک ریکارڈ مبینہ طور پر خطرناک اور مجرمانہ ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر 35 برس پرانے بھارت اور سویڈن کے درمیان بوفورس توپوں کے معاہدے میں بھارتی حکام کا بڑی رقم کی صورت میں کک بیکس لینے کا معاملہ ہے جس کی بازگشت گزشتہ برس سویڈن میں دوبارہ سنی گئی۔ آئیے بھارت اور سویڈن کے اس معاملے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ سویڈن کے ہردلعزیز کرشماتی وزیراعظم اولوف پالمے کو 1986ء میں قتل کردیا گیا تھا۔ اِس ہائی پروفائل قتل کے 34 برس بعد پچھلے برس 2020ء میں سویڈش حکام نے قاتل کی نشاندہی کی اور یہ کہہ کر کیس پر کارروائی بند کردی کہ مذکورہ قاتل کئی برس پہلے خودکشی کرچکا ہے۔ سویڈن کے وزیراعظم اولوف پالمے کے ہائی پروفائل قتل میں ملوث قاتل کی شناخت کے بعد کچھ حیرت انگیز امکانات پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ سویڈن کے چیف پراسیکیوٹر نے 10جون 2020ء کو ایک نیوز کانفرنس میں قاتل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیگ اینگسٹروم نامی شخص وزیراعظم اولوف پالمے کا قاتل تھا۔ یہ قاتل 20 سال قبل 2000ء میں خودکشی کرچکا ہے۔ قاتل کی موت کے باعث ہم اُس پر الزامات عائد نہیں کرسکتے اس لیے تحقیقات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سویڈش حکام نے اولوف پالمے کے مقدمے کو قانونی تقاضوں کے تحت بند کردیا لیکن ہسٹری کے کچھ ایسے اوراق پڑھتے ہیں جن کا تانا بانا جوڑنے سے معاملات کو پرکھنے کا دوسرا زاویہ بھی ملتا ہے۔ وزیراعظم اولوف پالمے کے قتل کے تقریباً ایک سال ڈیڑھ ماہ بعد 16 اپریل 1987ء کو ایک سویڈش اخبار نے پولیس وسل بلوئر کا ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ایک بریکنگ نیوز دی کہ سویڈن کی ہاؤٹزر توپیں بنانے والی کمپنی بوفورس نے بھارت کے ساتھ 15سو کروڑ کا سودا پکا کرنے کے لیے 60کروڑ کک بیکس کے طور پر دیئے ہیں۔ اسی
موضوع کے حوالے سے سویڈش مؤرخ جان بونڈیسن نے 2005ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”بلڈ آن دی سنو“ میں لکھا کہ وزیراعظم اولوف پالمے سے ان کے قتل کی صبح سویڈن میں تعینات عراقی سفیر نے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران عراقی سفیر نے بوفورس کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی کک بیکس کا ذکر کیا۔ خفیہ کک بیکس کی خبر سنتے ہی اولوف پالمے کو شدید غصہ آیا۔ اس کتاب کے مصنف جان بونڈیسن کے نزدیک ہوسکتا ہے کہ اسلحہ ساز کمپنی بوفورس اور اسلحہ بیچنے والے مڈل مین نے پہلے سے ہی پیش بندی کررکھی ہوکہ وزیراعظم اولوف پالمے کو اگر اِن کک بیکس کا پتہ چل گیا تو انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے گا کیونکہ وزیراعظم اولوف پالمے ایسی کسی کرپشن کے سخت خلاف تھے۔ وزیراعظم اولوف پالمے کے قتل کے ٹھیک 24دن بعد 24 مارچ 1986ء کو بھارت اور سویڈش اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے درمیان ہاؤٹزر توپوں کی فروخت کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ سویڈش چیف پراسیکیوٹر کی طرف سے چند روز قبل قاتل کا نام ظاہر ہونے پر ایک بھارتی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع ہوا جس میں لکھا گیا کہ قاتل اینگسٹروم کا تعلق بوفورس یا اسلحہ ساز انڈسٹری سے نہیں تھا۔ البتہ اُس کا انڈیا سے ایک کنکشن تھا۔ ویب سائٹ کا یہ مضمون پڑھنے کے بعد وہ سوال ذہن میں آتا ہے جو بہت سوں کو چونکا سکتا ہے۔ سوال سے پہلے قاتل اینگسٹروم کے بھارتی پس منظر کا تھوڑا سا جائزہ لے لیتے ہیں۔ مشہور سویڈش صحافی اور رائٹر تھامس پیٹرسن کی 2018ء میں فلٹر میگزین میں قسط وار شائع ہونے والی کتاب ”دی اَن لائکلی مرڈرر“ کے مطابق وزیراعظم اولوف پالمے کا قاتل اینگسٹروم 1934ء میں سویڈش والدین کے ہاں ممبئی ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ماچس بنانے والی وہاں کی ایک فیکٹری میں انجینئر تھا۔ قاتل اینگسٹروم نے ممبئی اور کلکتہ میں امیرانہ زندگی گزاری۔ اس کے گھر میں خانسامے، آیا، مالی اور ڈرائیور وغیرہ کی سہولتیں موجود تھیں۔ کچھ عرصے بعد قاتل اینگسٹروم کے والدین نے اُسے تامل ناڈو کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کرا دیا۔ بعد ازاں اُسے اُس کے آبائی ملک سویڈن بھجوا دیا گیا۔ سویڈن پہنچ کر قاتل اینگسٹروم سویڈن کے اُسی بورڈنگ سکول میں داخل ہوا جہاں مستقبل کے وزیراعظم اولوف پالمے بھی زیرتعلیم تھے۔ قاتل اینگسٹروم اپنے مزاج کے باعث تعلیم حاصل کرنے میں نالائق ثابت ہوا اور فیل ہوتا گیا جبکہ نوجوان اولوف پالمے بہترین طالبعلم ثابت ہوئے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں قاتل اینگسٹروم کے دل میں اولوف پالمے کے خلاف زمانہ طالبعلمی سے ہی حسد کی آگ بھڑک رہی تھی۔ قاتل اینگسٹروم کے مختصر حالات زندگی کے بعد اس کیس سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ سویڈش وزیراعظم اولوف پالمے کے اُس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم اولوف پالمے کو ہندوستانی حکام کو دی جانے والی کک بیکس کا جب پتا چلا تو انہیں کرپشن کے اِس معاملے پر زیادہ غصہ آیا۔ سویڈش پولیس کے سربراہ سٹین لنڈسٹورم کے مطابق ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی نے کک بیکس کی رقم بظاہر خود وصول نہیں کی۔ البتہ وہ اس بات کے قصوروار تھے کہ انہیں کک بیکس کا علم تھا لیکن انہوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اوپر بتائے گئے تمام واقعات اور دیئے گئے ثبوتوں کے بعد چند نکات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر وزیراعظم اولوف پالمے ایک دن مزید زندہ رہ جاتے تو ہوسکتا ہے اگلے روز وہ اپنے دفتر جاتے ہی ہندوستان کو فراہم کی جانے والی بوفورس ہاؤٹزر توپوں کا معاہدہ منسوخ کرانے کی کوشش کرتے یا کم از کم کک بیکس کی تحقیقات تک رکوا دیتے۔ ایسی صورت میں ہندوستانی حکام کو ملنے والی کرپشن کی بڑی رقم ڈوب جاتی۔ دوسرا یہ کہ متعلقہ ہندوستانی حکام نے کرپشن کی رقم کے حصول میں رکاوٹ ڈالنے والی کسی بھی صورت کو روکنے کے لیے قبل از وقت انتظام کررکھا تھا اور قاتل اینگسٹروم سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہوسکتا تھا جس کی زندگی کے پس منظر میں ہندوستان اور تامل ناڈو کے علاقے موجود تھے، اس لیے اُسے نفسیاتی طور پر جذباتی کرنا آسان تھا۔ تیسرا یہ کہ 1991ء میں راجیو گاندھی کو قتل کرنے والوں کا تعلق بھی تاملوں سے جوڑا گیا تھا۔ وہ ایسے کہ راجیو گاندھی کے قاتلوں کا تعلق سری لنکا میں موجود لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) سے بتایا گیا تھا۔ چوتھا یہ کہ بوفورس ہاؤٹزر توپوں کے معاہدے کی تیاری کے وقت کے دونوں وزرائے اعظم یعنی اولوف پالمے اور راجیو گاندھی قتل کردیئے گئے اور ان کے قتل کے پس منظر میں ہندوستان، تامل ناڈو اور تاملوں کا تعلق مشترکہ ہے۔ پانچواں یہ کہ وزیراعظم اولوف پالمے کے قتل کے بعد توپوں کے معاہدے کے جاری رہنے کا براہ راست فائدہ ہندوستان کو ہوا۔ مندرجہ بالا تمام دلائل کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سویڈش وزیراعظم اولوف پالمے کو قتل کرانے میں بھارتی حکام ملوث تھے؟ کیا اس پر بھی کبھی تحقیق ہوگی؟