پاکستان میں الیکشن کی تاریخ جوں جوںقریب آتی جا رہی ہے سیاسی ہلچل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیاں الیکشن کی جنگ میں اترنے کے لیے اپنی صفیں درست کر چکی ہیں اور اس سلسلہ میں انہوں نے مختلف حلقوں کے لیے اپنے اپنے پارٹی امیداوار وں کے نام بھی فائنل کر لیے ہیں۔
انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج تو ہمیشہ ہی متنازع رہتے ہیں لیکن اس سے پہلے ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی کچھ کم بدمزگی نہیں ہوتی۔شائد اسی مصلحت کے تحت سیاسی پارٹیاںبھی اپنے امیدواراوں کی حتمی فہرست جاری کرنے میں آخری حد تک تاخیر کرتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ امیدواران کی حتمی فہرست آتے ہی پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور لابنگ کا عمل زور پکڑ لے گا ۔
اس وقت جب سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کیے ہوئے ابھی ایک دن ہوا ہے ان کے کئی ناراض راہنما ٹکٹوں کی تقسیم پر نالاں ہو کر یا تو پارٹی چھوڑنے یا پھر پارٹی ڈسپلن سے انحراف کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اور وہ پارٹیاں جو ابھی چند روز پہلے تک آپس میں اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں کر رہی تھیں ان کے درمیان بھی ایک دم فاصلے قائم ہو گئے ہیں۔غرض پارٹی ٹکٹوں کا اعلان ہوتے ہی سیاسی میدان میں ایک نیا، ’کٹا کھل گیا ہے‘۔ یقیناکسی بھی جمہوری معاشرے میں، قومی انتخابات کے لیے امیدواروں کے انتخاب کا عمل ایک اہم پہلو ہے جو براہ راست حکمرانی کے معیار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں، میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹوں کی الاٹمنٹ کا رواج تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے اور ٹکٹ الاٹ کرتے وقت ، مالی معاملات، خاندانی افراد یا ان کے تعلق دار یا پھر
دوسری پارٹیوں سے مشروط طور پر شمولیت اختیار کرنے والے زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ میرٹ سے یہ انحراف منتخب نمائندوں کی قابلیت اور ساکھ کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے، جو آگے چل کر جمہوریت کی مجموعی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی بھی شخص کواس کی قابلیت، تجربہ ، عوامی خدمت یا پھر پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کیا جائے لیکن بدقسمتی سے اس سلسلہ میں میرٹ کے علاوہ دیگر امور کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔اور ایک سیاسی حکومت کی تشکیل میں جب میرٹ کو پس پشت ڈال دیا جائے گا تو اس صورت میں اسی قسم کے لوگ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے کہ جس قسم کی لاٹ کو ہم نے سال 2018کے عام انتخابات کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں دیکھا ہے۔ یعنی وزارتیں صرف جھنڈے والی گاڑی ، پروٹوکول اور کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی کے لیے حاصل کی گئیں اور حکومت سازی میں میرٹ اور صلاحیت کا کہیں دور دراز تک نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اگرچہ اس مرتبہ ٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلہ میں پاکستان تحریک انصاف کافی کنفیویژن کا شکار بھی رہی لیکن پھر بھی ایاز امیر صاحب کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینا تو بالکل ہی سمجھ سے باہر ہے۔بلا شبہ وہ بطور صحافی کھلم کھلا پی ٹی آئی کی حمائت کرتے رہے ہیں لیکن انہیں پارٹی ٹکٹ دیے جانے سے پہلے کم از کم یہ تو دیکھ لیا جانا چاہیے تھا کہ موصوف اس سے قبل بھی پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی ٹکٹ پر منتخب ہو کر ایک مرتبہ پنجا ب اسمبلی اور ایک مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں ۔ لیکن مستعفی ہونے کے بعد یہ صاحب اپنے اسمبلی الیکشن لڑنے کے فیصلہ کے بارے میں کیا کہتے رہے ہیں یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ ان کا یہ بھی خاصہ رہا ہے کہ جس پارٹی نے انہیں اسمبلی میں پہنچایا یہ اسی کے خلاف ہو جاتے ہیں ، اس لیے پی ٹی آئی کو ان کی صورت میں ایک اور دھچکے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی بدعنوانی کے ماحول کے فروغ کی ایک بڑی وجہ روپیہ، پیسہ یا خاندانی روابط کی بنیاد پر ٹکٹوں کی الاٹمنٹ ہے۔ یہ عمل نہ صرف عوامی اعتماد کو ختم کرتا ہے بلکہ ایک ایسے نظام کو بھی قائم کرنے میں مددگار ہوتا ہے جہاں مالی وسائل رکھنے والوں کو غیر منصفانہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس بات کو مانتے تو سبھی ہیں لیکن عمل کوئی نہیں کرتا کہ سیاسی جماعتوں میں میرٹ کی بنیاد پر فیصلے ایک صحت مند جمہوریت کی اساس ہیں۔لیکن جب اسی بنیادی اصول پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے تو جمہوری عمل خود ہی مجروح ہو جاتا ہے کیونکہ منتخب نمائندے عوام کی مرضی اور مفادات کی صحیح معنوں میں عکاسی کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور ایجنڈے کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ مفاد پرست عناصر کا اسمبلیوں میں پہنچ جانا قومی سلامتی کے لیے بھی شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
میرا تو مشورہ یہ ہو گا کہ تمام ہی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب زیادہ شفاف بنانے کے لیے اس عمل میں تعلیمی قابلیت، متعلقہ تجربہ، عوامی خدمت کے ٹریک ریکارڈ اور پارٹی سے وفاداری کے معیار چیک کرنے کے علاوہ اس عمل میں عوامی ان پٹ کو بھی شامل کریں۔ اس سلسلہ میں پارٹی ممبرز کی میٹنگز، عوامی مباحثے، یا رائے دہندگان کی ترجیحات اور توقعات کا اندازہ لگانے کے لیے سروے شامل کیے جا سکتے ہیں۔
جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی انتخابات کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کو ترجیح دی جائے۔ ایسا کرنے سے،ہم اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندے نہ صرف اپنی جماعتوں کے وفادار ہیں بلکہ وہ اپنے حلقوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری اہلیت اور لگن بھی رکھتے ہیں۔ یقینا سیاسی عمل میں میرٹ کریسی کو اپنانا صرف انصاف کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری معاشرے کی پائیدار بہبود کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔