اسلام آباد:سانحہ مری کیلئے تحقیق کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میںایسے انکشافات سامنے آگئے جس نے مری انتظامیہ کے پول کھول دئیے ،سانحہ مری کے وقت برف ہٹانے والی گاڑیاں تو موجود تھیں لیکن ان کو چلانے والا عملہ غائب تھا جبکہ محکمہ جنگلات کے افسران بھی تحقیقاتی ٹیم کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔
تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بڑے بڑوں کے پول کھل گئے ،جہاں ایک طرف مری میں قائم ہوٹلوں نے اپنے ضمیر کے سودے کیے وہیں مری انتظامیہ نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ،سانحہ مری کے وقت برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر کھڑے ہونے کا انکشاف ہوا ہے،گاڑیوں کے ڈرائیور موجود تھے نہ ہی دیگر عملہ جبکہ محکمہ جنگلات کے حکام کمیٹی کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے آپریشنل عملے اورریسکیو اہلکاروں کے بیانات قلمبند کر لئے ، 4رکنی تحقیقاتی ٹیم نے انتظامی، آپریشنل افسران اور اسٹاف کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں، پانچوں روز کی تحقیقات میں سانحہ مری میں ریسکیو 1122 کے فرنٹ لائن اہلکاروں کے بیانات قلبند کیے گئے۔برفانی طوفان کے وقت برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر کھڑے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
برف ہٹانے والی 29 گاڑیوں میں سے 20 ایک ہی پوائنٹ سنی بنک میں کھڑی تھیں، گاڑیوں کو چلانے کیلئے متعین ڈرائیورز، عملہ بھی ڈیوٹی پر موجود نہ تھا،میٹ آفس نے شدید برف باری کی وارننگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جاری کی تھی، محکمہ جنگلات کے اہلکار کمیٹی کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے،کمیٹی نے عملے کی تفصیلات اور ان کی ذمہ داریوں کی فہرست طلب کرلی ہیں۔
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے سانحہ مری کے دوران مری کے داخلی راستوں اور سڑکوں سے تقریبا 50 ہزار گاڑیاں واپس بھیجیں، تمام گاڑیاں مری کی جانب جارہی تھی جس سے مزید ہلاکتیں ہوسکتی تھی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد علی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، سی پی او ساجد کیانی، چیف ٹریفک آفیسر تیمور خان، ٹریفک کے فیلڈ افسران، اسسٹنٹ کمشنر مری، این ایچ اے حکام اور موٹروے پولیس افسران کے بیانات بھی قلمبند کرلیے ہیں۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیر کو تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلی پنجاب کو پیش کردی جائے گی، رپورٹ کی فائنڈنگ کے تحت ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔