یہ بات نہیں کہ وطنِ عز یز میں قدرتی آ فا ت سے نمٹنے کے لیئے کسی محکمے کا وجو دنہیں، بلکہ این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھا رٹی ) کے عنوان سے محکمہ مو جو د ہے۔ اس کا سا لا نہ بجٹ اربوں رو پے کا ہے۔ اس کے افسران کی تنخواہیں لاکھو ں میں ہیں۔ انہیں نئے ما ڈلز کی گا ڑیوں اور اعلیٰ قسم کے بنگلوں کی آسا ئشیں میسر ہیں۔ یوںملک کے معروف سیاحتی مقام مری میں گزشتہ دنوں جو سانحہ رونما ہوا ،اس کے ظاہری اسباب موسمی تھے مگر درصل اسی محکمے کی انتظامی نااہلی، مجرمانہ غفلت اور فرائض سے لاعلمی اس المناک سانحے کا سبب بنی جس کی تلخ یادیں تادیر رہیں گی۔ مو جو دہ حکومت نے منافقت کا سہارا لیتے ہو ئے مر ی حادثے کو قد رتی آفت قرا ر دینے کی غرض سے مشہو ر کر دیا کہ وہا ں چھ فٹ سے زیا دہ بر ف پڑچکی ہے ، جبکہ محکمہ مو سمیا ت نے یہ بتا کر پو ل کھو ل دیا کہ برف با ری سترہ انچ سے زیا دہ نہیں ہو ئی۔ اور پھر یہ کہ اکیلے این ڈی ایم اے پہ ہی مو قوف نہیں، ملک میں تیس سے زیا دہ ایسے محکمے مو جو د ہیں جن کی کا رکر دگی مکمل طو ر پر صفر ہے مگر ان کے سالا نہ بجٹ ار بو ں میں ہیں۔یہ سب اس حکومت کے ’عہد زریں‘ میں پیش آر ہا ہے جو ملک کو سیاحت میں سوئٹزرلینڈ کا مدمقابل بنانے کے تصور پیش کرتی ہے۔ صد افسوس کہ جس دارالحکومت میں یہ دعوے کیے جاتے رہے اور ملک کو سیاحت کی جنت بنانے کے خواب دیکھے اور عوام کو دکھائے جاتے رہے، جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اس دارالحکومت سے کچھ فاصلے پر مری کے راستوں میں ہزاروں افراد اپنے کنبوں اور کم سن بچوں کے ساتھ رات بھر شدید برفانی موسم کے رحم و کرم پر کھلے آسمان تلے پڑے رہے اور ان میں سے 22 ٹھٹھر کر جاں بحق ہوگئے۔ ان بے گناہ ہلاکتوں نے حکومت کی نااہلی کا پول ایک بار پھر کھول دیا ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کو دعوت دینے والی حکومت سے کھلے آسمان تلے گاڑیوں میں پھنسے ان افراد کے لیے بروقت امداد کا بندوبست کیا جاسکا اور نہ ہی انہیں محفوظ مقامات پر پہنچانے کا کوئی انتظام ہوسکا۔ یہ سانحہ ملک کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں نہیں ہوا، جہاں تک رسائی ناممکن تھی بلکہ وفاقی دارالحکومت کے پچھواڑے میں ہوا ہے مگر مقامی، ضلعی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں ان کم از کم بائیس افراد کی جان نہیں بچاسکیں، نہ ہی بیس گھنٹوں سے برف باری میں پھنسے ہزاروں افراد کو بروقت کوئی سہولت فراہم کی جاسکی۔ جمعہ کے روز مری اور گلیات کے علاقوں میں غیرمعمولی برف باری ہوئی مگر یہ سب غیرمتوقع نہیں تھا۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ انہوں نے پانچ تاریخ کو اس شدید موسم کی پیش گوئی کردی تھی اور اسی امکان پر لوگوں کی بڑی تعداد مری کی جانب چل نکلی تھی۔ برف باری کے موسم میں سیاحوں کا مری اور دیگر سرمائی سیاحتی مقامات کی جانب سفر خلاف معمول نہیں، مگر اس قسم کی صورت حال میں انتظامی اداروں کو خصوصی انتظامات کرنے چاہئیں تھے۔ جبکہ ہمارے ادارے پیشگی اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی مشکل میں پھنسے لوگوں کے لیے بروقت حفاظت اقدامات کر پاتے ہیں۔ یہ
اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب پانی سر سے گزرنے والا ہوتا ہے اور حالات زیادہ تر قابو سے باہر ہوچکے ہوتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ صورت حال ان کے قابو سے باہر ہورہی ہے تو راستے بند کردیئے جاتے ہیں، مگر داخلہ بند کرنے کی یہ حکمت عملی ہمیشہ منفی نتائج دیتی ہے۔ کیونکہ اس سے نہ علاقے سے نکلنے والے نکل سکتے ہیں نہ آنے والے داخل ہوسکتے ہیں۔ یوں میلوں تک ہزاروں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں۔ مری یا دیگر سیاحتی مقامات میں گاڑیاں کھڑی کرنے اور رہائش وغیرہ کی گنجائش کا اداروں کو یقینا اچھی طرح علم ہوگا، مگر اس گنجائش سے کئی گنا زیادہ افراد گاڑیوں کے داخلے کو روکنے کا کوئی مناسب حل ہمارے اداروں کی سمجھ میں آج تک نہیں آسکا۔ چنانچہ سیاحوں کے جم غفیر کے پھنس جانے اور تکلیفیں اُٹھانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، ہر سال عید یا لمبی چھٹیوں کے دنوں میں یہی کچھ ہوتا ہے مگر اب تک کوئی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جاسکا؛ چنانچہ سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی جانب سے اس سے بڑی کوتاہی یہ کی جاتی ہے کہ صورتِ حال سے لوگوں کو بروقت آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک حالات کی خبر اس وقت پہنچتی ہے جب معاملات نہایت گمبھیر صورت اختیار کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ سراسر نااہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ سیاحتی مقامات جو سیاحوں کی آمد سے کماتے ہیں اگر وہاں کی مقامی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کچھ اقدامات کرلے تو ایسے اندوہناک حادثات اور شہریوں کی جانیں خطرات کی نذر ہونے سے بچائی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں برف دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ پڑتی ہے، نہ یہاں سیاحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، سال کے چند ماہ اور ان مہینوں میں بھی کچھ دن سیاحوں کی آمد زیادہ ہوتی ہے مگر ہمارے اداروں سے ان چند دنوں کے لیے بھی انتظامات نہیں ہوپاتے۔ ہمیشہ اس حکو مت کے ادا رے اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے، جیسا کہ مری کے اس سانحے کے دوران ہوا۔ کم از کم بائیس افراد کی جان گئی، ایک ہنستا بستا کنبہ مٹ گیا تو ہماری صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر اور ریسکیو ادارے حرکت میں آئے اور چند ہی گھنٹوں میں حالات پر خاصا قابو پالیا گیا، وہ بھی فوج کی مدد سے، سول انتظامیہ کچھ بھی نہ کرسکی۔ سوال یہ ہے کہ انتظامی ادارے کیوں بروقت بروئے کار نہیں آسکے؟ کیا وہ ان حالات کو دیکھ نہیں رہے تھے کہ ہزاروں افراد سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں اور شدید برف باری کی پیشگوئی ہے؟ اگر یہ بروقت سوچ لیا جاتا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سترہ انچ برف اس قدر جان لیوا ثابت نہ ہوتی۔ بائیس جانیں کھوجانے کے بعد جو اقدامات کیے گئے ہیں، یہ پہلے بھی کیے جاسکتے تھے، لیکن کہیں کوئی پلاننگ نظر نہیں آئی۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ انتظامات اور وسائل موجود تھے، ان کو بروقت بروئے کار نہ لایا جاسکا، یعنی نومن تیل تو موجود تھا، رادھا ہی تیار نہیں ہوئی۔ اس المناک حادثے نے پاکستان کے سیاحتی منظرنامے کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ سیاحتی مقامات پر چند دن خوشگوار ماحول میں گزارنے جاتے ہیں، سڑکوں پر ٹھٹھر کر مرنے، ہوٹلوں کی اجارہ داری کے ہاتھوں جیبیں خالی کرانے، سڑکوں پر دن رات بھوکے پیاسے بھٹکنے، بے یارو مددگار پھنسے رہنے کے لیے نہیں جاتے۔ ہماری حکومت نے سیاحت کے فروغ کے جو دعوے کیے ان سے لوگوں میں گھوم پھر کر ملک دیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا، یعنی داخلی سطح پر سیاحت کو فروغ ملا۔ ان دوران ضروری تھا کہ حکومت نے سیاحتی بندوبست کو بھی کسی معیاری سطح پر ہینڈل کرنے کا انتظام کیا ہوتا، چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لیے شوقِ سیاحت اور سیاحتی سہولیات اور مقامات کی مینجمنٹ میں غیرمعمولی عدم توازن پیدا ہوچکا ہے۔ حکومت نے سہولیات کی بہتری پر کوئی توجہ دی ہے، نہ انتظامات بہتر بنائے گئے، سیاحت کو ترقی دینے کا صرف نعرہ دیا ہے۔ تفریح او رزندگی میں خوشگوار لمحات کے متلاشی حکومت کے اس دعوے پر اعتبار کرکے سیاحت کے نام پر مصیبتیں اُٹھارہے ہیں۔
محتر م وزیرِ اعظم صا حب ایک در خو است یہ کہ آ پ کی حکو مت کے جو لو گ اس سارے معاملے کو سیاحوں کی لاپروائی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ خدارا ان کا تو نو ٹس لیں۔ورنہ عوام یہ کہنے پہ مجبور ہو جا ئیں گے کہ:
قا تل کی یہ دلیل منصف نے ما ن لی
مقتول خو د گرا تھا خنجر کی نو ک پر
بنام وزیراعظم عمران خان، بارے این ڈی ایم اے
08:44 AM, 14 Jan, 2022