معاشرے میں تبدیلی اور ارتقا کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ضروریات میں بھی تبدیلیاں آتی رہی ہیں لیکن کچھ ضروریات ایسی ہیں جو کہ بنیادی ہیں اور ہر دور کے انسانی معاشرے کو ان کی طلب رہی ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں ایک بہت اہم ضرورت قیادت کی ہے، چاہے وہ غاروں اور جنگلوں میں رہنے والے انسانوں کی خوراک کے لئے شکاری مہمات تھیں یا عہدِ حاضر کی بے مثال ترقی، ہر ایک کی کامیابی کا انحصار بہترین قیادت پر رہا ہے۔ ایک کامیاب انسانی معاشرے کے لئے قیادت کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقوام کے عروج میں جو عنصر سب سے زیادہ اہم رہا ہے وہ قیادت ہے جب بھی کسی قوم کو اعلیٰ قیادت میسر آئی ہے وہ قوم دیکھتے دیکھتے بامِ عروج پر جا پہنچی۔ خود تحریکِ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ جب برِ صغیر کے مسلمانوں کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میسر آئی تو انہوں نے پاکستان کا وہ خواب سچا کر دکھایا جس کا اس سے چند سال قبل کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے یہ امر طے شدہ ہے کہ بھرپور قیادت کے بغیر کوئی قوم بھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی اور نہ ہی عروج حاصل کر سکتی ہے بلکہ اس کے برعکس اچھی ترقی یافتہ قومیں قیادت کے فقدان کے نتیجے میں زوال پذیر ہو کر اپنی آزادی اور عزت و آبرو گنوا بیٹھتی رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود مسلمانوں کا زوال ہے جس کی سب سے بڑی وجہ قیادت کا فقدان تھا۔ ویسے بھی یہی قانونِ قدرت جب کسی ملک یا علاقے کی قیادت اخلاق، دیانتداری، محنت، انصاف اور لگن جیسی صفات سے عاری ہو جائے تو قدرت وہاں کچھ نئے لوگوں کو وہاں بھیج دیتی ہے جو ان سے اقتدار چھین کرقابض ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ ہماری لیڈر شپ میں خلوص کی کمی ہے ۔ہمارے سیاسی لیڈر جنہوں نے قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے عوام کو ایسی کوئی قطعی راہ دکھا نہیں پا رہے ہیں جس سے عوام مطمئن ہو سکیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اراکینِ پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں پر مشتمل ٹیکس ڈائریکٹری برائے سال 2019ء جاری کی ہے جس کے مطابق 80 سینیٹرز اور 312 ارکانِ قومی اسمبلی نے 2019ء میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے نجیب ہارون نے سب سے زیادہ ٹیکس 14 کروڑ 7 لاکھ 49 ہزار
روپے ادا کیا ۔ جب کہ10 ارکانِ قومی اسمبلی اور 10 سینٹ کے ارکان نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا اور جو ادا بھی کر رہے ہیں ان میں اکثریت معمولی شرح سے ٹیکس ادائیگی کر رہی ہے۔ 10 ارکانِ سینٹ میں سے سینٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف اور سابق وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی جن کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں نے پھوٹی کوڑی بھی ٹیکس ادا کرنا گوارا نہیں کیا۔ ان ارکانِ اسمبلی نے ٹیکس ادا نہ کر کے واضح کر دیا ہے کہ انہیں قومی مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اپنی قومی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملے میں قطعی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہے کہ اگر اراکینِ اسمبلی ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو وہ عوام کو کس منہ سے ٹیکس ادا کرنے کی نصیحت کریں گے۔ عوام دیکھتے ہیں کہ ان کے وہ نمائندے جنہیں رول ماڈل ہونا چاہئے وہ عوام کے ٹیکس پر پلتے ہیں، مراعات بھی لیتے ہیں اور انہیں دنیا کی تمام آسائشیںبھی میسر ہیںلیکن خود ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں، ہمارے ملک کے ایسے سیاستدان انتخابات کے دوران اپنی اشتہاری مہم اور دوسرے اخراجات کے لئے تو کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، ان کے بچے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ، بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بھی ہیں،ایکڑوں پر محیط محلوں جیسے گھروں میں بھی رہتے ہیں ، ان غیر معمولی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے غیر معمولی مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ٹیکس کی ادائیگی کی باری آتی ہے تو خود کو غریب ظاہر کر کے کو ئی ٹیکس ادائیگی نہیںکرتے یا پھر معمولی سا ٹیکس ادا کر کے بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے بھی ان کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں اور دوسری طرف یہی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار چھوٹے چھوٹے ٹیکس گزاروں پر ان کی بساط سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کے لئے غیر ضروری دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں تو عام آدمی پر اس بات کے بڑے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ارکانِ پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرنے کا مقصد حکومت کی جانب سے عوام کے سامنے یہ ثبوت رکھنا تھا کہ ٹیکس کا نظام شفاف طریقے سے کام کر رہا ہے اور عوامی نمائندے بھی ٹیکس دیتے ہیں تا کہ عام عوام کو ترغیب ملے کہ انہیں بھی ٹیکس ادا کرنا چاہئے مگر اس صورتحال نے تو کئی طرح کے سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ اس وقت پوری قوم ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہے، فکری لحاظ سے وہ سخت انتشار میں مبتلا ہے اور عملی لحاظ سے گروہ در گروہ تقسیم ہو چکی ہے۔ اسے اپنے نصب العین کا واضح شعور حاصل ہے نہ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق۔ وہ ہوا کے تند جھونکوں کے ساتھ ساتھ لمحہ بہ لمحہ اپنا رخ بدلنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ اس کی آزادی اس کی عصمت اس کا ضمیر سب کچھ اس کے قائدین کے ہاتھوں غیر محفوظ ہے اور اس کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت تک باقی نہیں رہی ہے۔ یہ سیاستدان سیاست کو عبادت اور خدمت کا نام دیتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اسے ایک بزنس سمجھ کر کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس ادا کرنا غیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور عوام کی اکثریت ایمانداری سے ٹیکس ادا لرتی ہے لیکن ہمارے ہاں جب عوام دیکھتے ہیں کہ ان کے اراکینِ اسمبلی ٹیکس نہیں دیتے تو ان پر بھی اس بات کا منفی اثر پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس چوری کو ملک سے غداری سمجھا جاتا ہے جب کہ ہمارے ملک کی با اثر اشرافیہ قانون پر عملدرآمد کرنے کو گھٹیا کام سمجھتی ہے وہ قانون کو نظر انداز کر کے اپنے آپ کو طاقتور سمجھتی ہے۔ ٹیکس ڈائریکٹری کے اجرا سے عوام میںٹیکس گزاری کی قومی اہمیت باور کرانا ہے تا کہ عوام میں ٹیکس ادا کرنے کی امنگ پیدا ہو لیکن اگر بااثر اشرافیہ اس حد تک معمولی ٹیکس ادا کرے گی تو وہاں ٹیکس دائریکٹری کے اجرا سے عوام میں ٹیکس گزاری کی تحریک پیدا کرنا بظاہر ناکام کوشش ہے۔
عوام یہ دیکھ کر کہ بڑے بڑے لیڈر صرف اس لئے اپنے اثاثے بچوں کے نام منتقل کر دیتے ہیں کہ ان کو انکم ٹیکس کی ادائیگی سے چھوٹ مل جائے تو وہ مایوسی کی دلدل میں غرق ہو جاتے ہے۔ ایسی صورت حال کسی بھی قوم کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہو سکتی اور اس حالت سے نکلنے بغیر کوئی بھی قوم ترقی و خوشحالی تو کجا اپنی بقا کی ضمانت بھی حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لئے ہمارے لئے ناگزیر ہو گیا ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے آپ کو اس تباہی و بربادی سے بچانے کی کوئی سبیل کریں جس کی طرف قوم کے لیڈر ماضی میں تیز رفتاری سے لیجاتے رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ہماری قیادت کو صحیح سوچ، مثبت پروگرام اور دیانتدارانہ جذبے کی ضرورت ہے۔ جس بات نے قوم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ ہمارے سیاستدانوں کا خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ طرزِ عمل ہے جو وہ عوامی مفاد اور ملکی امور کی انجام دہی کے بارے میں اختیار کرتے رہے ہیں۔