سمندری آلودگی سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان،ڈائریکٹر جنرل آف پورٹ اینڈ شپنگ

سمندری آلودگی سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان،ڈائریکٹر جنرل آف پورٹ اینڈ شپنگ

یومیہ 40لاکھ گیلن میونسپل اور صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے، اسد رفیق چندانا
کراچی: سمندری میں مستقل بنیادوں پر زہریلہ مادہ، صنعتوں اور دیگر فضلہ بغیر کسی پروسس کے پھینکے جانے کے باعث یہاں ہونے والی آلودگی سے بحری جہازوں کو بچانے کیلئے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔یہ بات ڈائریکٹر جنرل آف پورٹ اینڈ شپنگ اسد رفیق چندانا نے کراچی پورٹ ٹرسٹ(کے پی ٹی)کے ویسٹ ہارف پر سمندری آلودگی کے جائزے کیلئے دورہ کرنے والے جوڈیشنل کمیشن کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتائی۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں کمیشن کو صوبے سندھ میں ماحولیاتی آلودگی، پینے کے صاف پانی اور صفائی کی سہولیات فراہم کرنے میں ریاست کی ناکامی کے حوالے سے رپورٹ ترتیب دینے کی ہدایت کی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل آف پورٹ اینڈ شپنگ کا کہنا تھا کہ 25سال قبل یہ پانی نیلے تھے اور ان میں ڈولفن کو دیکھا جاسکتا تھا، آج سمندری مخلوق ناپید ہے کیونکہ بندرگاہ 100فیصد آلودہ ہوچکی ہے۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ یومیہ 40لاکھ گیلن میونسپل اور صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ان کے مطابق سمندر میں زہریلہ مادہ دو گنا ہونے کی وجہ سے صرف پاکستان نیوی کو ان کے جہازوں کی صفائی کیلئے سالانہ ایک ا رب روپے کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تمام تینوں حکومتوں کی جانب سے فضلے کو ٹھانے لگانے والے ٹریٹمنٹ پلانٹس کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا گیا جبکہ گریٹر کراچی سیوریج ٹریٹمنٹ پروجیکٹ، جو ایس تھری کے نام سے معروف ہے اور 2007سے تعطل کا شکار ہے، تاخیر کے باعث منصوبے کا تخمینہ 8ارب سے بڑھ کر 39ارب تک پہنچ چکا ہے۔

اس حوالے سے کی جانے والی غفلت کو جرم قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صنعتی فضلے کو ان کی پیداوار کے مقام پر ہی ٹریٹ کرانے کو یقینی بنانے کیلئے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، اور نہ ہی سمندری آلودگی میں اضافے کی نگرانی کی جاتی ہے، اگر ٹریٹمنٹ پلانٹ بنانے کیلئے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو شہر کے بچے اور

مصنف کے بارے میں