ایک اور "اعزاز" عمران خان کے نام ، یوٹرن کی سنچری کرنے والے دنیا کے پہلے سیاستدان بن گئے 

ایک اور
سورس: File

اسلام آباد : حکومت کی تبدیلی کی سازش کے بارے میں عمران خان کے موقف میں تازہ ترین تبدیلی سے سابق وزیر اعظم نے جتنا یو ٹرن لیا ہے اس کی تعداد شاید سو سے تجاوز کر چکی ہے (غالباً عمران خان دنیا کے پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے یوٹرن کی سنچری مکمل کرلی ہے)۔ عمران خان کی واحد مستقل پالیسی جس پر انہوں نے کبھی اباؤٹ ٹرن نہیں لیا وہ ’’تقریباً ہر بیان پر یو ٹرن لینا‘ ہے۔ 

سینئر صحافی فخر درانی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان کے مشہور یو ٹرن کی فہرست کے مطابق 27 مارچ 2022 کو عمران خان نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے عدم اعتماد کے اقدام اور ان کی حکومت کے خلاف سازش کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے۔ بعد میں انہوں نے امریکی سازش کے اس بیان پر چار سے زیادہ موقف بدلے۔ 

ایک ایسے وقت میں جب انہوں نے امریکی حکومت کی تبدیلی کی سازش کا دعویٰ کیا، ان کی پارٹی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور پارٹی کا مثبت امیج بنانے کے لیے ایک امریکی لابنگ فرم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر رہی تھی۔ عمران خان نے امریکی سازش پر اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے ایک طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کو روک سکتے تھے۔ 

عمران خان نے ایک بار پھر امریکی سازشی تھیوری پر اپنا موقف بدل لیا اور اس بار انہوں نے نواز، زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر کو آپریشن رجیم کا اصل کردار قرار دیا۔ گویا یہ کافی نہیں تھا، خان نے ایک بار پھر حکومت کی تبدیلی کی سازش پر اپنا موقف بدل لیا اور دعویٰ کیا کہ آپریشن رجیم چینج کے پیچھے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا ہاتھ ہے۔ 

اب بالآخر عمران خان نے 360 ڈگری کا یو ٹرن لے لیا ہے اور کہا کہ حکومت تبدیلی کی سازش امپورٹ نہیں تھی بلکہ ایکسپورٹڈ سازش تھی۔ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران نے آرمی چیف کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی منطق پر سوال اٹھایا۔ جبکہ اسی دوران میڈیا نے اس بات کا انکشاف کیا کہ خان نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ 

عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور اراکین قومی اسمبلی کو متنبہ کیا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت کسی بھی غیر ملکی سفارت کار سے ملاقات نہ کریں۔ تاہم بعد ازاں نہ صرف پی ٹی آئی رہنما بلکہ عمران خان نے بھی سفارتکاروں سے ملاقات کی۔ تحریک عدم اعتماد کے عمل میں خان نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن جماعتیں ان کی پارٹی کے اراکین کے ووٹ خریدنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بعد میں ایک آڈیو لیک نے انکشاف کیا کہ خان خود اپنی حکومت بچانے کے لیے ووٹوں کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران آرمی چیف جنرل باجوہ کو جمہوریت نواز فوجی سربراہ قرار دیا لیکن اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد عمران نے انہیں میر جعفر اور میر صادق قرار دیا۔ اپنی حکومت بچانے کے بدلے جنرل باجوہ کو توسیع کی پیشکش کی۔ تاہم، وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد، عمران نے باجوہ پر تنقید کی۔ بحیثیت وزیر اعظم عمران نے فخریہ کہا تھا کہ ان کے پاس تمام اختیارات ہیں لیکن جب معزول ہوئے تو انہوں نے اپنا موقف بدل لیا اور کہا کہ حکومت کے بغیر اختیارات کے سربراہ ہیں۔ 

خان نے کئی بار دعویٰ کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں نواز زرداری کی کرپشن کے بارے میں بریف کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد اپنا موقف بدل لیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نواز اور زرداری کو بچانا چاہتی ہے۔ عمران خان اور ان کی حکومت نے پیکا آرڈیننس اور اس ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کا دفاع کیا لیکن اب صحافیوں کے خلاف اسی ایکٹ کے تحت مقدمات پر حکومت پر تنقید کر رہے ہیں جو ان کی حکومت کے دور میں پاس ہوا تھا۔ 

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے اپنے ایم این ایز کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا کہا۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنے ایم این ایز کو پارلیمنٹ میں واپس جانے اور استعفے واپس لینے کا حکم دیا۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ اس امپورٹڈ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنیں گے اور ضمنی الیکشن لڑیں گے لیکن بعد میں خان نے خود نو میں سے آٹھ خالی نشستوں پر الیکشن لڑا۔ 

عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ خان قومی اسمبلی کی تمام خالی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے لیکن بعد میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار خالی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے۔ عمران خان نے اس وقت روس کا دورہ کیا جب میزبان ملک جنگ چھیڑنے والا تھا۔ بعد میں انہوں نے یہ کہہ کر دفاع کیا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ روس ان کے دورے کے دوران جنگ شروع کر دے گا۔ 

عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ خان نے روس کے ساتھ سستے نرخوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے کو حتمی شکل دی۔ روسی حکومت نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔ عمران نے ہمیشہ کرکٹ میں نیوٹرل امپائرز متعارف کرانے کا کریڈٹ لیا لیکن جب ان کی حکومت گری تو عمران نے فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صرف جانور ہی غیر جانبدار ہو سکتے ہیں۔ 

عمران خان نے کہا کہ چوروں کی حکومتوں کے ساتھ کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔ وہ صرف عسکری قیادت سے بات چیت کریں گے۔ تاہم اب پی ٹی آئی نے انتخابات کے لیے مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ نومبر 2021 میں خان حکومت نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے پرواز کرنے والے طیاروں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دفتر خارجہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور دفتر خارجہ کے تحفظات پر خان کی حکومت نے فیصلہ واپس لے لیا۔ 

یکم نومبر کو اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری ارسال کردی۔ خان نے سمری مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام پر اضافی بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ تاہم پانچ دن کے اندر انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ خان نے حالیہ پشاور حملے کو حکومت کی سیکورٹی ناکامی قرار دیا لیکن یہ ان کی حکومت تھی جس نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے تھے۔ 

13 مارچ 2022 کو تحریک عدم اعتماد سے ٹھیک پہلے عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ٹماٹر اور آلو کی قیمتیں چیک کرنے کے لیے حکومت میں نہیں آیا۔ حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد خان مسلسل حکومت کو بنیادی اشیاء کی قیمتوں اور مہنگائی کی یاد دلاتے رہے۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو ایسے وقت میں غیر جانبدار رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جب ان کی حکومت گرائی جا رہی تھی۔ تاہم اب ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے پیچھے جنرل ریٹائرڈ باجوہ کا ہاتھ ہے۔ 

عمران خان نے پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کو زرداری کا پی اے (پرسنل اسسٹنٹ) قرار دیا۔ تاہم سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے دوران عمران خان پریس بریفنگ میں خورشید شاہ کے پیچھے کھڑے رہے۔ 1997 میں خان نے سیاست میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی سیاست کا آغاز کیا لیکن بعد میں انہوں نے پرویز مشرف کو ملک کا وردی والا صدر منتخب کروانے کے لیے ووٹ دیا۔ 

عمران خان مشرف دور میں قومی اسمبلی کے رکن بنے لیکن بعد میں ان کے خلاف ہوگئے۔ مشرف نے بعد میں دعویٰ کیا کہ عمران ان سے 100 نشستیں چاہتے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ الیکٹ ایبلز پر تنقید کی اور اعلان کیا کہ وہ ان الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں کبھی نہیں لیں گے۔ لیکن بعد میں انہوں نے ان الیکٹیبلز کی مدد سے پنجاب میں اپنی حکومت بنائی۔ عمران خان ٹرن کوٹس سے نفرت کرتے تھے لیکن 2010 کے عوامی جلسے کے بعد انہوں نے ان تمام ٹرن کوٹس کو قبول کر لیا جنہوں نے ان کی پارٹی میں شامل ہونے کا انتخاب کیا۔ 

چوہدری پرویز الٰہی نے اس وقت جنرل احمد شجاع پاشا کو اس اقدام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عمران نے عوام کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے کبھی کسی کا کندھا استعمال نہیں کریں گے لیکن بعد میں اعتراف کیا کہ ایجنسیاں کسی بھی اہم قانون سازی سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کو لا کر ان کی مدد کرتی تھیں۔ 

فروری 2022 میں عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تحریری معاہدے میں پیٹرولیم اور بجلی کی نئی قیمتوں پر عملدرآمد پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن تین ہفتوں میں یو ٹرن لے کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ عمران خان نے ہمیشہ ایمنسٹی اسکیم پر تنقید کی اور اسے کالے دھن کو سفید کرنے کی اسکیم قرار دیا۔ تاہم ان کی حکومت نے ایسی کئی اسکیمیں متعارف کروائیں اور فرح خان جیسی ان کی قریبی ساتھیوں نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔ 

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اس وقت عاشقان رسول ﷺکی جماعت تھی جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے۔ تاہم عمران خان کی اپنی حکومت کے دوران جب انہوں نے احتجاج کیا تو خان ​​نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ عمران خان حکومت نے قومی سلامتی کے اجلاس میں ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن اس فیصلے کے دو دن کے اندر خان حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کیا اور تمام گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا۔

عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی کسی غیر ملکی دوروں پر بڑا وفد نہیں لائیں گے لیکن میڈیا نے کئی بار یہ اطلاع دی کہ خان نے ایک بڑے وفد کے ساتھ دورہ کیا۔ خان نے میٹرو بس پر تنقید کی اور ان کی اپنی حکومت نے پشاور میں میٹرو بس منصوبہ شروع کیا۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی کسی کرپٹ عنصر کا دفاع نہیں کریں گے لیکن خان کی قریبی ساتھی فرح خان پر سنگین الزامات کے باوجود انہوں نے عوامی سطح پر ان کا دفاع کیا۔ 

عمران خان نے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو اپنی ہی حکومت میں تعینات کیا اور ان کے بارے میں اچھے ریمارکس دیے۔ تاہم بعد میں اپنا موقف بدلا اور ان پر الزامات لگا دیے۔ خان سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے بارے میں بھی اچھی رائے رکھتے تھے لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد وہ ان کے بھی خلاف ہو گئے۔عمران نے وعدہ کیا تھا کہ ان کا آزادی مارچ پرامن ہو گا لیکن جب مارچ جناح ایونیو اسلام آباد پہنچا تو اس نے پرتشدد شکل اختیار کر لی اور وہاں موجود درختوں اور دیگر املاک کو نذر آتش کر دیا۔ 

جب آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر رہا کیا گیا، ان کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ عمران خان کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ تاہم خان کی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ توشہ خان کی تفصیلات ظاہر کرنا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ خان نے وہ تمام تحائف بیچ دیے جو انہیں مختلف ممالک سے ملے تھے۔ 

خان جنہوں نے دعویٰ کیا کہ توشہ خانہ کی تفصیلات ان کی اپنی حکومت کے دوران ریاستی راز ہیں لیکن دوسری حکومتوں کی تفصیلات بھی ظاہر کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ انتخابات سے قبل عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے۔ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے اعلان کیا گیا کہ وہ اسپیکر ہاؤس میں رہیں گے، پھر فیصلہ بدل دیا گیا اور میڈیا کو بتایا گیا کہ وہ پنجاب ہاؤس میں قیام کریں گے۔ تاہم بالآخر وہ اب پی ایم ہاؤس میں آباد ہیں جہاں وہ ملٹری سیکریٹری ہاؤس میں رہائش پذیر ہیں۔ 

عمران نے الیکشن سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ بطور وزیراعظم وہ کبھی پروٹوکول نہیں لیں گے۔ تاہم وہ نہ صرف وزیر اعظم کے لیے مخصوص چھ لگژری گاڑیاں استعمال کر رہے تھے بلکہ ملک کے وزیر اعظم کے طور پر انھیں دیگر تمام پروٹوکول بھی فراہم کیے جا رہے تھے۔ 

عمران خان مثالیں دیتے تھے کہ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر سفر کر سکتا ہے تو ہمارے وزیراعظم کیوں نہیں کرسکتے۔ تاہم وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان ہیلی کاپٹر کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالہ روانہ ہوئے۔ عمران خان سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ تاہم عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پرویز الٰہی نہ صرف عمران خان کے اہم اتحادی ہیں بلکہ پی ٹی آئی نے انہیں پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بھی منتخب کیا۔ 

عمران خان نے پرویز الٰہی کی پارٹی کو صوبائی اور وفاقی کابینہ میں بھی چند نشستیں دیں۔ 2018 کے عام انتخابات سے پہلے عمران خان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو دہشت گرد جماعت کہتے تھے۔ انہوں نے ایک بار یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے سربراہ کے خلاف برطانیہ میں شکایت کریں گے۔ تاہم عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم نہ صرف عمران خان کی اتحادی جماعت ہے بلکہ اس نے انہیں وفاقی کابینہ میں اہم عہدے بھی الاٹ کیے۔ 

مصنف کے بارے میں