مغرب اور یورپ کی دیکھا دیکھی موسم بہار کی آمد پر’’14فروری‘‘کو مسلم دنیا خاص طور پاکستان میں بھی جب مختلف کمرشل اداروں کی کاوش سے بے حیائی اور بے راہ روی کا تہوار ’’ویلنٹائن ڈے‘‘منانے کی ریت بڑھنے اور حیا باختگی جنم لینے لگی تواسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی نے 2009ء میں اس فرسودہ اور جدید نظریات کے نام پر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے ایجنڈے کے آگے دلیل سے بند باندھنے اور بے حیائی کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے بھر پور انداز میں ’’یوم حیا‘‘ منانے کا آغاز کیا۔(راقم اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی کا ناظم تھا) حیا اسلام کے بنیادی اوصاف میں سے ہے۔ حیادراصل حیات سے ہے اورحیا میں زندگی ہے، ایمان رونق اورخیرو برکت ہے۔زندگی کی تمام رعنائیاں اور انس و محبت اور شفقت و الفت سب حیا ہی کی مرہون منت ہے۔ انسان جسم و روح کا مرکب ہے۔روح کی پاکیزگی حیا سے حاصل ہوتی ہے۔ رسولؐ کا ارشاد ہے: الحیاء من الایمان حیا ایمان میں سے ہے۔ (ترمذی) یہ بھی فرمایا گیا کہ جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔
مغرب اور یورپ نے ہمیشہ مسلم خواتین کو بھی اپنی خواتین جو شدید سردی اور برف باری میں بھی آدھا لباس پہننے پر مجبور کردی گئی ہیں کی طرح پورے لباس سے محروم کردینے کی سازشیں کی ہیں لیکن الحمد للہ مسلم خواتین نے ان سازشوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ابھی کل ہی کی بات ہے،کرناٹک سے امت کی بیٹی مسکان خان نے ہندو بلوائیوں اور آرایس ایس کے غنڈوں کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرکے قوم کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔پوری دنیا میں مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی اس بیٹی کی جرأت کو سلام پیش کررہے ہیں جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے دین، اللہ کے احکامات اور نبی اکرم ؐ کی شریعت مطاہرہ کی لاج رکھ لی اور خود کو بے حجاب نہیں ہونے دیا۔اس بہادر،نڈر اور جرأت مند بیٹی نے اپنے عمل سے سوئی ہوئی قوم اور عالم اسلام کو یاد دلایا ہے کہ عزت سے جینا چاہتے ہو تو جرأت کا راستہ اپناؤ اور اپنے اللہ پر کامل ایمان لے آؤ۔ اللہ تعالیٰ ہی کا خصوصی فضل و کرم تھا کہ اس نے اپنی ایک نہتی بندی کو یہ حوصلہ اور قوت عطا کی کہ اس نے سینکڑوں غنڈوں کو للکارا اورساری دنیا کے سامنے ان کو ذلت و رسوائی سے دو چار کردیا۔
روئے زمین کی سب سے پاکبازہستیاں اوررسول اللہؐ کی طرف سے قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونہ قراردی جانے والی مقدس و محترم امہات المومنین اور صحابیات نے ہمیشہ پردہ کی مکمل پابندی کی اور اپنے طرز زندگی سے مومن عورتوں کو بھی ہمیشہ حیا کو اپنائے رکھنے کی تلقین کی۔
سورۃ الاحزاب میں فرمایا کہ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادر وں کے پلولٹکالیاکرو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘‘۔ فرمان الہٰی ہے ’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔‘‘(سورۃ النور کی آیت نمبر۳۱)
اسی طرح مردوں کے متعلق بھی فرمایا کہ (اے نبی) ’’کہہ دیجیے مسلمان مردوں سے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی ناموس کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے بے شک اللہ تعالی کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃنور۔آیت نمبر 30)
پہلے مردوں کو اور پھر خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ با حیا زندگی گزاریں اور اللہ سے ڈرتے ر ہیں۔ مردوں کو اللہ نے گھر کا سربراہ بنایا ہے۔ ایک باپ کی حیثیت سے وہ اہل خانہ کے لیے رول ماڈل ہے، گھر اسی کی مرضی اور منشا کے مطابق چلتا ہے اور خاتون خانہ بھی اپنے خاوند کی مرضی کے مطابق اپنے گھر کو چلانے میں خوش رہتی ہے،مرد چاہے جیسا نظام لائے دوسروں کو اس کی اطاعت کرنا ہی پڑتی ہے۔ اگر باپ کی آنکھوں میں حیا ہوگی تو بیٹی کبھی نظریں نہیں اٹھائے گی اور اگر بھائی دوسروں کی بہنوں کو بھی اپنی بہن کی طرح سمجھتا ہوگا اور کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا ہوگا تو اس کی بہن بھی دوسروں کی گندی اور غلیظ نظروں سے محفوظ رہے گی۔
قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے تذکرے بکثرت موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں بے حیائی کو اپنے قریب پھٹکنے کا موقع نہیں دیا اور اپنی زندگیاں شرم و حیاکے د ائر ہ میں رہتے ہوئے اور اللہ کی خوشنودی کیلئے گزاریں۔تمام انبیاکرام عصمت و حیا کے پیکر تھے۔حضور ؐ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق فرمایا تھا کہ ان سے تو فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اللہ کے دین کے باغیوں نے اللہ کے بندوں اور بندیوں پر تہمت لگائی تو خود اللہ تعالیٰ نے ان کی حیا اور پاک دامنی کی گواہی دی۔سیدناحضرت یوسف ؑ،ام عیسیٰ حضرت مریمؑ اورام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ وطاہرہ کی پاکدامنی کے متعلق سورہ نور میں اٹھارہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں۔نہ صرف پیغمبر آخرالزمان حضرت محمدؐ کے صحابہ و صحابیات بلکہ ان سے پہلے آنے والے انبیاء کے پیروکاروں نے بھی اس قدرحیا کے ساتھ زندگیاں گزاریں کہ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جنگل سے گزررہے تھے انہوں نے دیکھا کہ ایک کنویں سے چرواہے اپنی بکریوں کو پانی پلارہے ہیں اور دو لڑکیاں اپنی بکریوں کولے کر ایک طرف کھڑی ان کے جانے کا انتظار کررہی تھیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ میں کب سے دیکھ رہا ہوں،آپ اپنی بکریوں کو پانی کیوں نہیں پلارہیں تو ان میں سے بڑی بچی نے کہا کہ ہم کنویں میں سے پانی نہیں نکال سکتیں،چرواہے اپنی بکریوں کو پانی پلا کر لے جائیں گے تو بچا ہواپانی ہم اپنی بکریوں کو پلائیں گی۔حضرت موسیٰ ؑ نے کنویں سے پانی نکال کر بکریوں کو پلادیا۔حضرت شعیبؑ کو پتا چلاتو انہوں نے بڑی بیٹی کو بھیجا کہ جاؤ اس شخص کو بلالاؤ جس نے ہماری بکریوں کو پانی پلایا۔حضرت موسیٰ ؑ اس لڑکی کے پیچھے چلتے ہوئے ان کے گھر جارہے تھے تو ان کی نظر لڑکی کی پنڈلی پر پڑی۔حضرت موسیٰ ؑنے فوری طور پر اپنی نظریں نیچے کیں اور لڑکی سے کہا کہ آپ میرے پیچھے چلو اور رستے کی نشاندہی پتھر پھینک کر کرتی جاؤ۔اللہ تعالیٰ کو موسیٰ ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسے قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کیلئے قرآن پاک کا حصہ بنا دیا۔
آج کچھ دین بیزار اور حیا سے عاری لوگ کہتے ہیں کہ پردہ نظر کا ہوتا ہے اور اگر کوئی بچی یا بچہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اپنی پسندیدگی کا اظہار پھول دیکر کرتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے لیکن یہی لوگ اس وقت سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی سرپھراگستاخی کا مرتکب ہوتے ہوئے ان کی بیٹی یا بہن کو پھول پیش کردیتا ہے۔مغربی این جی اوز کی تنخواہوں پر پلنے والے کچھ افراد نے جب ’’میرا جسم میری مرضی‘‘کے سلوگن سے حیا کو پامال کرنے کی کوشش کی تو انہیں سخت معاشرتی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اورعفت وحیا کی پیکر بیٹیوں نے ان کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ آج کی نوجوان نسل سوشل میڈیا پر اسلام دشمن قوتوں کے سیکولر و لبرل نظریات کی خوب بیخ کنی کر رہی ہے اور حجاب سمیت اسلامی شعار کا دفاع کر رہی ہے۔ نوجوانوں کا اسلام کی طرف پلٹنا اور اپنے شعار کی حفاظت کے لیے ہر اوّل دستہ بننا قابل ستائش ہے۔ اس پراللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر اور حمد و ثنا کی جائے کم ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا ملک و قوم پر کرم و فضل اور عظیم احسان ہے کہ اس نے پاکستان کی نظریاتی شناخت کو مٹانے کی ہر کوشش اور سازش کو ناکام بنایا اور سازشوں میں مصروف غلامان مغرب کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی۔
آج الحمدللہ پوری دنیا میں حیاء ڈے قرآن و سنت کے حوالوں کے ساتھ ویلنٹائن ڈے کو شکست سے دوچار کر رہا ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ سختی،تشدد اور بے جا پابندیوں کے بجائے دلیل کی ضرب اور دوسروں کے لیے عملی نمونہ بنتے ہوئے حیاء کے کلچر کو عام کرنے کی پر امن کوششیں جاری رہنی چاہئیںکیونکہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔
آئیے اس 14 فروری کو’’ویلنٹائن ڈے’’کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے ’’اس بار‘‘’’حیاء ڈے‘‘’’کو مسکان خان کی جرأت اور استقامت کے نام کرتے ہیں ۔ پوری دنیا میں اللہ اکبر کا نعرہ اور حیاء کا کلچر ہماری علامت ہے یہ نعرہ ہمیشہ لگتا رہے گا ان شاء اللہ
شعلہ شمع خدائی بھی کبھی بجھتا ہے
رہ گئے اپنا سامنہ لے کے بجھانے والے
نقش اسلام نہ اعداء کے مٹانے سے مٹا
مٹ گئے خود ہی جو تھے مٹانے والے