جس بد تر طریقے سے پنجاب کے کچھ اعلیٰ بیوروکریٹ ہمارے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ساتھ کھیل رہے ہیں ،یہ سردار سائیں کو کل کلاں کو ہی پتہ چلے گا جب وہ اس عہدے پر نہیں ہوں گے ،ابھی تو انہیں سب ہرا ہرا ہی نظر آرہا ہے۔کچھ انتظامی بزرجمہروں کی طرف سے ہر اچھے کام کا کریڈٹ خود لے لیا جاتا ہے اور ہر برا کام وزیر اعلیٰ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سردار صاحب تو ہماری سنتے ہی نہیں ہیں، ہم تو انہیں بہت سمجھاتے ہیں مگر وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے دل میں آتا ہے۔حالانکہ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جتنا عثمان بزدار اپنے سٹاف اور سنیئر بیوروکریٹس کی سنتے ہیں پچھلا کوئی وزیر اعلیٰ کم ہی سنتا تھا۔
ابھی حال ہی میں جس بھونڈے طریقے سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا ایک کیمپ آفس تونسہ میں بنایا گیا ہے ،یہ اپنی مثال آپ ہے ،اس پر کسی نے کیا خوب کہا کہ ،،ٹکے ٹوکری سیکرٹریٹ ،، ایک پینا فلیکس لگا کر کبھی سیکرٹریٹ بنائے جاتے ہیں،اس سے پہلے یہ ہی پتہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ ملتان ہے یا بہاولپور اور اب ایک نیا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ تونسہ میں بنا دیا گیا ہے ،اور اس کو بنانے کا ملبہ بھی وزیر اعلیٰ پر ڈال دیا گیا ہے کیا انتظامی سیکرٹریٹ بنانا وزیر اعلیٰ کا کام ہے ؟ چیف سیکرٹری صاحب یا پھر ایڈیشنل چیف سیکرٹری صاحب جنوبی پنجاب کا ، جس طرح اس نئے سیکرٹریٹ کا نوٹیفیکیشن کیا گیا ہے اور اس میں وزیر اعلیٰ کا ذکر ہے تو کوئی بھی اسکی قانونی حیثیت کو چیلنج کر دے گا اور جواب وزیر اعلیٰ کو دینا پڑے گا ، طرفہ تماشہ یہ کہ جنوبی پنجاب کے سیکرٹریوں کو ایک حکم کے ذریعے پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ ہفتے میں دو دن وہاں بیٹھا کریں گے۔اس حکم پر بھی ہنسی آتی ہے کہ اب جنوبی پنجاب کے سیکرٹریوں کو وزٹنگ سیکرٹری ہی بنا دیا گیا ہے جس کے تحت وہ لاہور،ملتان،بہاولپور،اور تونسہ میں دورہ کرتے رہا کریں گے یوں انہیں ہر وقت سڑکوں پر رہنے کا حکم ملاہے،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انکی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے چیک کیا جائے انہوں نے کتنے کلو میٹر فاصلہ طے کیا ہے اور انہوں نے اپنے کس کس سیکرٹریٹ کے کتنے چکر لگائے ہیں۔مجھے ڈر ہے کہیں اس طریقے میں جنوبی پنجاب کے سیکرٹریوں کو چکری سیکرٹری ہی نہ بنا دیا جائے یا وہ نام دے دیا جائے جو وفاقی حکومت ہمارے کچھ لوگوں کو ایمبیسیڈر ایٹ لارج لگا کر انہیں اردو نام گشتی سفیر دیتی تھی،یوں ہمارے جنوبی پنجاب کے سیکرٹریوں کو لوگ گشتی سیکرٹری ہی نہ کہنا شروع کر دیں۔
اب نئے تونسہ سیکرٹریٹ کا حال یہ ہے کہ وہاں ڈھنگ سے بیٹھنے کو کوئی کمرہ ہے نہ فرنیچر اور ویسے بھی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کسی ایک تحصیل کے لئے تھوڑا ہوتا ہے یہ تو پورے جنوبی پنجاب کے لئے ہے۔کیا اس نئے تونسہ سیکرٹریٹ سے جنوبی پنجاب کے عوام یہ سمجھیں کہ یہ سول سیکرٹریٹ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے بنایا گیا ہے؟ میرے خیال میں وزیر اعلیٰ کو اس کا فوری طور پر جائزہ لینا ہو گا کہ اس نئے سیکرٹریٹ کے قیام سے حکومت پر کروڑوں کا نیا بوجھ ڈال دیا گیا ہے ،گاڑیوں کا پٹرول،افسروں کے ٹی اے ڈی اے الگ سے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ حکومت اور وزیر اعلیٰ بزدار کے لئے کوئی نیک نامی ہو گی نہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا۔
عوام مہنگائی بیروزگاری،بد امنی لاقانونیت کا شکار ہیں ، صحت تعلیم،انصاف کیلئے بے حال ہیں اور حکومت وفاقی وزرآ میں کارکردگی سرٹیفیکیٹ تقسیم کر رہی ہے،عوام حیران ہیں کہ جس کار کردگی پر تعریفی اسناد دی گئیں وہ کہاں ہے،وہ کیا ہے؟ زمین پر تو کہیں دکھائی نہیں دیتی،’’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘عوام کوا نعام دکھا کر بیوقوف بنانے کی ایک بھونڈی کوشش،یہی حال اپوزیشن کا ہے،آج عوام جس صورتحال سے دوچار ہیں اپوزیشن اس میں برابر کی ذمہ دار ہے جو عمران خان سے زیادہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے مگر ایسی کوئی منصوبہ بندی نہ کی جس کی وجہ سے عوام کو کچھ ریلیف مل سکتا،حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جنگ اقتدار کیلئے ہے،مگر دونوں عوام کو کامیابی سے اُلو بنا رہے ہیں اور عوام بن رہے ہیں،سچ یہ کہ اگر حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے کسی پروگرام کے حوالے سے تہی دامن ہے تو اپوزیشن کے پاس بھی کوئی ایسی گیدڑ سنگھی نہیں جس کے استعمال سے عوام کو سکھ کا سانس آسکے۔
پیپلز پارٹی 27فروری کو کراچی سے لانگ مارچ لیکر اسلام آباد روانگی کی تیاری کر رہی ہے،ن لیگ پیپلز پارٹی کی تجویز پر تحریک عدم اعتماد لانے اور اسے کامیاب کرانے کی تگ و دو میں ہے،حکومت بھی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنا زور لگا رہی ہے،ایسے میں کوئی بات یقینی طور پر کہنا قبل از وقت ہو گا،ن لیگ کی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا دارومدار حکومت کی اتحادی جماعتوں اور ناراض حکومتی ارکان کی حمائت پر ہے،اور اس حوالے سے شہباز شریف اور آصف زرداری کو رابطوں ملاقاتوں کے باوجود کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی،اپوزیشن کی یہ تمام کوشش و سعی اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہے ادھر حکومت کی بھی تمام مشق اقتدار بچانے کیلئے ہے،عوام کو ریلیف دینے،مہنگائی،بیروزگاری سے نجات،پولیس مظالم سے نجات،فوری انصاف کی فراہمی،مافیاز کی چور بازاری کے تدارک کیلئے اگر حکومت کچھ نہیں کر پائی تو اپوزیشن کے پاس بھی کوئی منصوبہ کوئی پروگرام نہیں،دونوں عوام کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے بے حس دکھائی دیتے ہیں۔
وزیر اعظم نے معلوم نہیں ایسی کونسی عینک لگا رکھی ہے جس میں سے ان کو اپنے وزرا ء کی بہتر کارکردگی دکھائی دی، جن وزراء کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے وہ خود بھی حیران ہوں گے اور انہیں خود معلوم نہ ہو گا کہ ان سے ایسا کون سا کارنامہ سر زد ہواجس پر ان کو تعریفی اسناد سے نوازا گیا،قوم کو شائد کچھ اطمینان میسر آیا ہو کہ کابینہ کے ارکان میں کوئی تو ایسا ہے جس کی کارکردگی کی تعریف کی جا سکے،مگر بد قسمتی سے پنجاب کابینہ میں ایسے کتنے وزیر ہیں جن کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اس کی تعریف و توصیف کرنے کی تحریک ہو،حکومت کو ہر طرف سب اچھا دکھائی دے رہا ہے اس کے باوجود کسی کابینہ رکن کو تعریفی سند دینا ممکن نہیں۔
یہ ایسا وقت تھا جب حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے فوری نوعیت کے اقدامات بروئے کار لاتی،اگر چہ اس کیلئے طویل المیعاد منصوبے بھی ضروری ہیں مگر جن حالات سے عوام گزر رہے ہیں اس میں فوری سرجری کی ضرورت ہے۔پنجاب میں حکمرانی کا نوحہ لکھتے گڈ گورننس کو خوردبین لگا کر دیکھا مگر کیا گلہ کرے کوئی کس سے شکایت کی جائے،حکمران ہیں مگر حکومت کہیں نہیں،اپوزیشن ہے مگر عوام کا کوئی ترجمان نہیں،اقتدار کی دوڑ لگی ہے،ملک اور عوام کا اللہ حافظ ہے۔
ٹکے ٹوکری سیکرٹریٹ
08:55 AM, 14 Feb, 2022