ملک کے وزیرِا عظم جنا ب عمران خا ن صا حب کی حکو مت نے اسی فیصد اور اس سے زائد کارکردگی والی 23 وزارتوں کی ریکنگ جاری کی ہے اور اس میں سرفہرست دس وزرا کو وزیراعظم عمران خان نے توصیفی اسناد دی ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سزا اور جزا کے بغیر کوئی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تعریفی اسناد کی تقسیم سے وزارتوں کی کارکردگی مزید بہتر ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ گورننس کا مقصد عوام کی زندگی میں بہتری لانا ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نے بجا فرمایا مگر حکومت کی جانب سے جاری کی گئی اس رینکنگ پر جو سوال اُٹھ رہے ہیں ان کا جواب کون دے گا؟ بنیادی طور پر ہوتا ہے کہ ہر درجہ بندی کا ایک پیمانہ مقرر کیا جاتا ہے جسے رپورٹ یا سروے میں پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ درجہ بندی کے لیے کیا معیار مقرر کیا گیا؛ تاہم جن 23 وزارتوں کی کارکردگی 80 فیصد بتائی گئی ہے، اس کے لیے پیمانہ اور معیار کیا رکھا گیا؟ کیا اس سلسلے میں کسی غیر جانبدار ادارے سے سروے کروایا گیا یا حکومت کے داخلی نظام میں کچھ ایسا بندوبست موجود ہے جس سے کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؟ حکومت نے اس کی وضاحت نہیں کی جس سے یہ درجہ بندی تسلی بخش قرار نہیں پاتی اور نہ ہی اسے رینکنگ کے کسی معیار کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے۔ سا منے کی با ت تو یہ ہے کہ عمران خا ن صا حب نے اپنے پہ اٹھا ئے گئے کسی بھی الزا م کا جوا ب دینے کو اپنی توہین خیا ل کیا اور اب اگر کارکردگی جانچنے کے لیے مقرر کیے گئے پیرامیٹرز کو پبلک کیا جاتا تو عوام بھی جان سکتے کہ وزارتوں کی کارکردگی کا تخمینہ کن بنیادوں پر لگایا جارہا ہے، بلکہ بہتر ہوتا عوام سے رائے طلب کی جاتی کہ کون سی وزارت کی کارکردگی کتنی ہے اور وہ کس وزارت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ جو کچھ کیا گیا، ایسے ہی ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو نمبر دے دیں، اسے کون مانے گا؟ اسی لیے ’عمدہ‘ کارکردگی والی وزارتیں ہدف تنقید ہیں اور لوگ ٹویٹر پر ان کی کارکردگی کا کچا چٹھا کھول رہے ہیں۔ حیران کن طور پر دس بہترین وزارتوں میں وزارت صنعت و پیداوار بھی شامل ہے اور یہ اس وقت ہورہا ہے جب ملک میں کھادوں کی قیمت سو فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے اور کھادوں کا بحران بدترین صورت اختیار کرچکا ہے۔ بعض علاقوں میں تو کھادیں دستیاب ہی نہیں، جہاں ہیں بلیک میں فروخت ہورہی ہیں۔ وزارت صنعت و پیداوار ملک میں وافر کھاد کی پیداوار کے دعوے کرتی رہی لیکن بحران شدید تر ہوتا گیا۔ اس بحران میں وزارت کی کارکردگی منفی رہی کیونکہ وزیراعظم کی جانب سے مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود یہ وزارت کھاد کے بحران کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس وزارت سے منسلک یہ پہلا بحران نہیں تھا، یاد کریں اس سے پہلے چینی بنانے
والے کارخانوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کس طرح مارکیٹ میں چینی کی بدترین قلت رہی اور لوگ لمبی قطاروں میں لگ کر چینی مانگتے رہے۔ وزارت صنعت و پیداوار اس صورت حال سے لاتعلق اور خاموش تماشائی بنی رہی اور حکومت کو بالآخر چینی درآمد کرکے اس بحران کو ٹالنا پڑا، جس طرح اب کھاد کے بحران میں کیا جارہا ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کی کارکردگی میں ان بحرانوں کے سوا نمایاں طور پر کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وزارت تخفیفِ غربت کو حسن کارکردگی کی توصیفی سند بھی حیران کن ہے کیونکہ ملک میں فی الواقع غربت میں اضافہ ہورہا ہے اور ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق روزانہ 3.2 ڈالر کمانے والے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کی غربت جو 2020-21ء میں 39.3 فیصد تھی 2022-23ء میں 39.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ حکومت کے تخفیف غربت کے محکمے نے بڑھتی ہوئی غربت کو مفت کی روٹی جیسے منصوبوں کی اوٹ میں چھپانا چاہا اور ایسے بیانیے دیئے گئے کہ غریبوں کو روٹی کھلانے سے ملک میں برکت آتی ہے، مگر حقیقی بنیادوں پر دیکھا جائے کہ ان منصوبوں اور ان پر خرچ ہونے والے وسائل کے کیا اثرات ہیں؟ ان مفت کی روٹیوں نے کتنے کنبوں کے مالی مسائل حل کیے؟ حکومت غربت کی دلدل میں دھنستے ہوئے لوگوں کے لیے آمدنی بڑھانے کے مفید اور پائیدار منصوبے شروع کرسکتی تھی۔ ایسے روزگار اور ہنر جو کم آمدنی والے طبقے کو پائیدار معاشی استحکام عطا کرتے اور لوگ مفت کی روٹی سے بے نیاز ہوکر ہاتھ کی کمائی سے عزت کی روٹی کھانے کے قابل ہوجاتے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر تخفیفِ غربت کی وزارت نے کوئی ایسا کام کیا ہوتا تو اسے ضرور حسن کارکردگی کی سند پیش کی جانی چاہیے تھی۔ وزارت فوڈ سیکورٹی کا حال بھی یہی ہے کہ اس دوران جب ملک میں خوراک کی مہنگائی سب سے زیادہ ہے اور آنے والے وقت میں اس میں کمی کے کوئی آثار بھی نہیں وزارت فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کس بہترین کارکردگی کا دعویٰ رکھتی ہے۔ کیا لوگ بھول گئے ہوں گے کہ جب ملک میں گندم اور آٹے کی قلت کا بحران پیدا ہوا تو اس وزارت کے سربراہ نے کہا تھا: مجھے نہیں پتا گندم کہاں گئی۔ پھر وزیراعظم اور دوسرے وزراء ہر دوسرے دن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قومی معیشت مستحکم ہوچکی ہے۔ اگر یہ دعوے مبنی بر حقیقت ہیں تو وزیرخزانہ شوکت ترین کو کیوں ’بہترین کارکردگی‘ کے اعزاز سے محروم رکھا گیا؟ کار کردگی کا اعتراف یقینا ہونا چاہیے مگر یہ انصاف پر مبنی ہونا چاہیے اور کسی ایسے پیمانے اور معیار کے مطابق جو ہر خاص و عام کے لیے قابل قبول ہو۔ اگر کارکردگی کا معیار یہ ہو کہ آپ چونکہ خود مانتے ہیں، آپ کی کارکردگی بہت عمدہ ہے اس لیے دوسرے بھی آپ سے اتفاق کریں گے، تو ایسی رینکنگ کو یکطرفہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسی رپورٹیں جن پر اُٹھنے والے سوالات کا دفاع نہ کیا جاسکے حکومت کی کوئی خدمت نہیں کرسکتیں۔ اس سے نہ عوام میں حکومتی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے نہ حکومتی کارکردگی کا مثبت تاثر قائم ہوسکتا ہے۔ وزارتوں کی کارکردگی سے عوام کے غیرمطمئن ہونے اور حکومت کی پیش کردہ رینکنگ پر سوالات اُٹھانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر فیصلے تو کرلیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ نہ ملکی حالات میں کوئی بہتری نظر آتی ہے اور نہ عوام کی زندگیوں پر ہی کارکردگی کے مثبت اثرات کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے۔ اتنے سال ہوگئے حکمرانوں کو وعدے اور دعوے کرتے ہوئے لیکن حالات ٹھیک ہی نہیں ہوپارہے۔ ایسے میں حکومت کی پیش کردہ رینکنگ سے عوام کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم اور وزراء گڈ گورننس کا معیار بہتر بنانے پر توجہ دیں تاکہ ان کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے اثرات عوام کی زندگیوں پر واضح طور پر نظر آئیں اور پھر حکومت کو ’اپنوں میں ریوڑیاں‘ بانٹنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ عوام کے حالات خود بتائیں کہ کس وزارت کی کارکردگی کس درجے پہ اچھی یا بری ہے۔ دراصل یہ حقیقی رینکنگ ہوگی۔بہر حا ل اس وقت سو شل میڈیا پہ جو محا ورہ سب سے زیا دہ گر دش میں ہے ، وہ یہی ہے کہ اند ھا با نٹے ریوڑیاں اپنو ں اپنو ں میں!!!