’’ سر! نئی نسل کے ایمان کی فکر کرناکیا صرف مذہبی فکر کی ذمہ داری ہے ، کیا ہم سب مسلمان نہیں ، کیا ہم سب نہیں چاہتے کہ امت مسلمہ کھوئے ہوئے عروج کو حاصل کرے ،کیا ہم سب نہیں چاہتے کہ امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ میں کردار ادا کریں ۔کیا سائنس وٹیکنالوجی میں پیچھے ہونے کے ذمہ دارمذہبی علماء ہیں،کیا قیام پاکستان کے بعد سے تاحال مذہبی فکر نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہیں دیا، کیا یہ مذہبی فکر کی شاندار کارکردگی نہیں کہ پوری دنیا سے لوگ علم دین کے حصول کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور کیا ہم ہر شعبہ میں زوال پذیر ہونے کے باو جود دینی علوم و فنون کی حفاظت و اشاعت میں دنیا کے امام نہیں ۔‘‘ میں نے میٹا ورس پر کالم لکھا تو اس پر متنوع فیڈ بیک آیا ، ان متنوع تبصروں اور تجاویز میں سے ایک تبصرہ میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم اور ہمارا سماج جدید مسائل اور چیلنجز کو دو انتہاؤں پر بیٹھ کر دیکھتے اور پوزیشن لیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ہم سب مسلمان اورپاکستانی ہیں لہٰذا ہمیں ا پنے مسائل کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے اکثر مسائل مولوی اور مسٹر کے تناظر میں دیکھتے اور یوں اصل مسئلے پر فوکس کی بجائے ہم فروعی اختلاف میں الجھ جاتے ہیں ۔ میرے خیال میں جدید علم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل کے حوالے سے مذہبی فکر کے ساتھ جدید اہل علم کو بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مذہب اور نئی نسل کے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے فکر مند رہیں۔ مغرب میں نئی ایجاد ات وہاں کا پادری یا چرچ نہیں کر رہا بلکہ جدید تعلیمی ادارے اور جدید اہل علم یہ کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔اس لیے ا ن نئی ایجادات کے مضر پہلوؤں سے نسل نو کو بچانے کی ذمہ داری جتنی مذہبی فکر پر عائد ہوتی ہے اسی قدر جدید اہل علم بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ مذہبی فکرکا اپنا ایک دائرہ ہے اور اسے ایک حد تک ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے ورنہ اصل میں ان چیلنجز کا جواب ڈھونڈنا اور ان کا حل جدید تعلیمی اداروں اور اہل علم کا کام ہے۔ ہمارے عہد کے مشہور سوالات اور اعتراضات بھی یہی ہیں کہ دینی روایت اور علماء خود کو عصر حاضرسے ہم آہنگ نہیں کر پاتے ، یہ ہمیشہ نئے تصورات کا انکار کرتے ہیں،ہرنئی ایجاد میں انہیں سازش نظر آتی ہے ،یہ ہر نئے نظریے کے خلاف لٹھ اٹھا لیتے ہیں، یہ انسانی شعور کو پتھر کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں اورآج ہم اسی رویے کی وجہ سے زوال پذیر ہیں۔ اس مقدمہ پر مزید تفریعات کچھ اس انداز میں ہوتی ہیں کہ پہلے یہ نئی ایجادات کا انکار کرتے ہیں پھر انہی کا سہارا لے کر میدان میں اترتے ہیں ، پہلے نئے تصورات سے مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے بعد میں انہی تصورات کو مذہب سے ہم آہنگ کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔پہلے سماجی تغیرات کی مزاحمت کرتے ہیں جب مزاحمت کام نہیں آتی تو اسے عین اسلام قرار دے دیتے ہیں۔ اس مقدمہ کے اثبات کیلئے جو مثالیں بطور استشہاد پیش کی جاتی ہیں ان میں تصویر کا مسئلہ، مائیکرو فون ، لاؤڈ سپیکر اورٹی وی کا جواز سر فہرست ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلے یہ اصولی بات سمجھ لی جائے کہ روایت اور علماء کے منصب کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ دین کو اصل شکل میں برقرار رکھا جائے۔ دین کی اصل کیا ہے ؟وہ جو رسول اللہﷺ پر نازل ہوا اور روایت کی صورت میں امت تک پہنچا۔اس لیے مذہبی فکر کی کوشش ہوتی ہے کہ جب تک ممکن ہو وہ دین کو سماجی تغیرات اور نئے تصورات سے محفوظ رکھیں۔ جب تک یہ دین اپنی اصل اور ماخذ کے قریب تر ہو گا اس کے مزاج کے درستگی اور خرافات سے دوری کا اہتمام ہوتا رہے گا۔یہ بطور خاص اہل مذہب کا رویہ نہیں بلکہ حیات انسانی کے ہر شعبہ میں یہی قانون رائج ہے ، ہر نئے نظریے اور تصور کو ابتدا ء
میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، سوشل سائنسز اور نیچرل سائنسز کے میدان میں بھی یہی اصول کارگر ہے ، مشرقی اور مغربی معاشروں میں یہ مزاحمت یکساں ہے۔جب امر واقع یہ ہے تو مذہبی فکر کو بھی یہ سپیس ملنی چاہئے کہ نئے تصورات و تغیرات کو بیک آن قبول کرنے کی بجائے ان پر غور و فکر اورسنجیدگی سے ان کا جائزہ لیا جائے۔انہیں حوادث زمانہ کی چھلنی سے گزارا جائے، جب تک ان کی اہمیت و افادیت مسلم نہ ہو اور سماج کا مجموعی ذہن انہیں اپنانے پر رضا مند نہ ہو تب تک انہیں موقوف رکھا جائے۔بعد میں عموم بلویٰ کی کیفیت میں بھی مطلقاً قبول نہ کیا جائے بلکہ شرعی اصولوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔مثلا ماضی قریب میں اہل علم کے مابین ٹی وی کے جواز اور عدم جواز کی بحث متنازع فیہ رہی ، علماء کے ایک طبقے نے اس کی اثر پذیری کے پیش نظر، بادل نخواستہ اس کے جواز اور اس کے ذریعے ابلاغ کی اجازت دی جبکہ علماء کی ایک جماعت آج بھی اس کے جواز کی قائل نہیں کہ اس سے معاشرتی تعمیر کم اور تخریب کا کام زیادہ ہو رہا ہے۔آج سماج میں شاید ہی کوئی فرد ہو جس کی ٹی وی تک رسائی نہ ہو اور وہ اس کی اثر پذیری سے محفوظ رہا ہو۔ فرض کریں اگر یہ جواز آج سے تیس چالیس سال پہلے پیش کر دیا جاتا تو شاید وہی لوگ جو آج یہ اعتراض کررہے ہیں کہ ٹی وی کا استعمال کیوں جائز نہیں تب اس کے جواز پر سوالات اٹھاتے ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ مذہبی فکر کے اس رویے کی وجہ بذات خود سائنس اور سائنسی علوم ہیں ، ہر نئی ایجاد کے بارے میں ابتداء میں سائنس کے نظریات کچھ ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ تبدیل ہو جاتے ہیں ،اس لیے جب تک کوئی حتمی نظریہ سامنے نہ آئے تب تک مذہبی فکر کوئی حتمی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی ورنہ سائنسی نظریات کی طرح مذہب بھی بازیچہء اطفا ل بن جائے۔مثلا لاؤڈ اسپیکر کے مسئلے میں جب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ امام کی آواز ہے جسے مشین بلند کر کے آگے پہنچاتی ہے تو علماء نے جواز کا حکم نہیں دیا اور جب سائنسی طور پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ امام کی ہی آواز ہے تو جواز کا حکم بھی آگیا۔ گویا ان سوالات اور اعترضات کا اصل محل مذہب اور اہل مذہب نہیں بلکہ خود سائنس، سائنسی علوم اور اس کے ماہرین ہیں۔ اس رویے کی ایک اہم وجہ عروج و زوال کا فلسفہ ہے ،جب کوئی قوم دور زوال سے گزرتی ہے تو مقابل تہذیب اور اس کے تصورات و نظریات کے بارے میں اس کی حساسیت ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تہذیب اس معاملے میں کچھ ذیادہ ہی محتاط ہے کہ اس کی اپنی بنیادیں اور کڑے معیارات ہیںاس لیے مذہبی فکر کسی ایجاد، تصور یا نظریے کے بارے حتمی رائے دینے میں بہت محطاط رہتی ہے ۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ میٹا ورس ہو، آرٹیفشل انٹیلی جنس کے مسائل ہوں، سوشل میڈیا کے سوالات ہوں یا اس جیسے دیگر جدید سوالات اور چیلنجز ، ان سے نمٹنا اور نئی نسل کے دین و ایمان کی فکر کرنا صرف مذہبی فکر کی ذمہ داری نہیں بلکہ بحثیت مسلمان ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ۔ ہمارا عالم ، استاذ، ڈاکٹر ، صحافی ،جج، وکیل ،سرمایہ دار اور سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر مسلمان اس کا ذمہ دار ہے۔ شر، بے دینی اور الحاد کسی ایک راستے سے حملہ آور نہیں ہو رہے بلکہ یہ مختلف طریقوں اور راستوں سے مسلم سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اس لیے لازم ہے کہ خیر کے داعی اور اصلاح کار بھی مختلف راستوں پر مورچہ زن ہوں اور نئی نسل کے دین و ایمان کی حفاظت اوراسلامی تہذیب کے مٹتے آثار کے تحفظ کی ذمہ داری دل وجان سے اداکریں۔ہمیں باہم متحد ہوکراور متنوع جہات پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور متحد ہو کر ہی ہم مذہب اور نئی نسل کے دین و ایمان کی حفاظت کر سکیں گے ورنہ اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالنا اور باہمی انتشار و افتراق پیدا کرنا، اس میں تو ہم پہلے ہی چمپئین ہیں۔