موضوع : ’’وطن تو کشمیر‘‘

08:18 AM, 14 Feb, 2022

نیوویب ڈیسک

جب پاکستان بنا تو والدین بھارت کے شہر امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور کے نواحی علاقے کامونکی آ کر آباد ہو گئے۔ ہجرت کا یہ سفر جا ری رہا۔ ماں باپ کی محنت اور جدو جہد کے بعد ہمارا خاندان لاہور آبسا۔ اماں اکثر کہتی تھیں کہ بھئی "وطن توکشمیر"۔ بچپن میں یہ بات اوپر سے گزر جاتی تھی۔ لیکن جوں جوں بڑے ہوئے اور اماں سے پوچھا تو بولیں، بھئی جہاں پیدا ہوتے ہیں، ہوش سنبھالتے ہیں اس علاقے کی خوشبو آپ کی سانسوں میں بس جاتی ہے۔ پھر آپ کہیں بھی چلے جائیں وہ خوشبو مرتے دم تک آپ کی سانسوں میں موجود رہتی ہے۔ پاکستان بنانے والی نسل اسی کشمکش کا شکار رہی ہے۔ لیکن اس کے بعد کی نسل نے ہجرت کا وہ دکھ نہیں دیکھا جو ہم سے پچھلی نسل دیکھ چکی تھی۔ یہ چار جنریشن کا پاکستان ہے۔ ایک جنریشن وہ ہے جس نے پاکستان کی عظیم تحریک میں حصہ لیا۔ ان میں سے سب لوگ نئے آزاد وطن میں آکر آباد نہ ہو سکے۔ ریڈکلف مشن کی ناہموار تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان پاکستان نہ آسکے۔ ان میں سے لاکھوں ایسے بھی تھے جو قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کے خلاف تھے۔ آج ہندوتوا کے غلبے اور نام نہاد سیکولر ازم کے پرچارک بھارت کے چہرے سے نقاب اٹھ چکا ہے۔ دو قومی نظریئے کے مخالفین بظاہر انکاری بھی رہیں تو نجی محفلوں میں ضرور اس با ت کا اقرار کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی منزل ایک علیحدہ وطن ہی تھا۔ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر انسانی حقوق کی جس قدر پامالی بھارت میں ہو رہی ہے شاید ہی کسی دوسریملک میں ہو۔ میرے والدین نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اس کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ میں پاکستان کی دوسری جنریشن کی نمائندگی کرتا ہو ں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے جب شعور سنبھالا تو ملک جمہوریت اور آمریت کے درمیان کشمکش کی کیفیت میں تھا۔ دن مہینے سال گزرتے گئے ۔آمریت اور جمہورت کی عنوان سے جو بھی حکومت آئی ان کا مقصد اور نعرہ ایک ہی تھا۔ ایک عام پاکستانی کی زندگی بدل کر رکھ دیں گے۔ ان آنکھوں نے پچھلے پچاس برسوں میں عام پاکستانی کی زندگی تو بدلتے کم 
ہی دیکھی ہے۔ لیکن اہل اقتدار چاہے وہ کوچہء سیاست سے تعلق رکھتے ہوں یا کوچہ خاکی سے ، عدل کے اعلیٰ ایوانوں کے محترم ہوں یا بیووروکریٹ بابو ہوں۔ان کی زندگی کو ضرور بدلتے دیکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ نظام 22 کروڑ عوام کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کے ایونوں میں بیٹھے چند ہزار افراد کے لئے بنا ہے۔ مجھے کئی بار امریکہ ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور مڈل ایسٹ جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو میعار زندگی، رہن سہن، ترقی اور ڈسپلن دیکھ کر دل میں ایک کسک سی اٹھتی ہے۔ اگر وسائل کے اعتبار سے پاکستان کا موازنہ ان ممالک سے کیا جائے تو یقین جانیئے ہمیں سجدے سے سر اٹھانے کی فرصت نہ ملے۔ لیکن پھر بھی پست میعار زندگی ہم پاکستانیوں کا مقدر کیوں ہے ؟ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ دوبئی جو آج سے چار دہائیاں قبل ایک لق و دق صحرا تھا۔ آج اس کا شمار دنیا کے بہترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ممکن ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے طے کر لیا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کی جائے۔ ایک ایسا ون ونڈو نظام دیا جس نے عوام کی زندگی آسان کر دی۔ دوبئی دنیا بھر کے سیاحوں اور سرمایہ کاروں کی جنت بن چکا ہے۔ ان ملکوں میں جاکراحساس ہوتا ہے کہ ہم آخر کس نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں ؟ کیا یہ اس جدید دور میں انسانی تقاضوں سے ہم آہنگ نظام ہے ؟ صرف یہ مثال دیکھ لیں ایک ہفتہ قبل دوبئی سے ایمریٹس کی پرواز سے پاکستان روانہ ہوا تو دوبئی ائر پورٹ پر کسی بھی دقت کا سامنا نہیں ہوا۔ ہر کام ایک سسٹم کے تحت میں مکمل ہونے کے بعد ٹھیک ڈھائی گھنٹے کی پرواز کے بعد جہاز نے لاہور ائر پورٹ لینڈ کیا۔ دیگر تین ائر لاینز کے جہاز ہم سے پہلے لینڈ کر چکے تھے۔ سب سے پہلا مرحلہ ان چار جہازوں کے سامان میں سے اپنا بیگ تلاش کرنا تھا جس کے لئے ٹرالی بھی دستیاب نہیں تھی ۔ ایک گھنٹہ صبر آزما جدوجہد کے بعد بیگ ملا تو پارکنگ کی لمبی لائنوں میں انتظار کی کوفت اٹھاتے لوگوں کو دست و گریباں دیکھا۔ کل تین گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ائر پورٹ سے باہر نکلا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس سے کم وقت میں دوبئی سے لاہور پہنچ گیا لیکن ائرپورٹ سے گھر پہنچنے میں ساڑھے تین لگ گئے۔ جو قوم اپنے ائر پورٹس ٹھیک نہیں کر سکتی وہ باہر سے آنے والوں کو سرمایہ کاری کی دعوت کیسے دے گی؟بہترین سیاحتی اور ثقافتی مقامات کے باوجود بیرونی دنیا سے لوگ سیاحت کے لئے پاکستان کیوں آئیں ؟ پر کشش مراعات کے باوجود میں بھی پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ملک تصور نہیں کیا جاتا۔اس کی تین بڑی وجوہات ہیں ، سیاسی عدم استحکام ، جمہوری تسلسل میں رکاوٹیں اور قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا۔ افسوس یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں یہ تینوں چیزیں شامل نہیں ہیں۔ تحریک انصاف حکومت سے یہ امید کی جارہی تھی کہ احتسابی عمل کے ذریعے ملکی نظام میں ایک نئی روح پھونکی جائے گی لیکن یہ احتساب صرف سیاسی مخالفین تک محدود ہو کر بے نتیجہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم بننے سے پہلے جو دعوے کئے تھے کہ وہ غریب کی تقدیر بدل دیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے تین برسوں میں 72 فیصد پاکستانیوں کے حالات پہلے سے بد تر ہوگئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر مڈل کلاس ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے اپنے ضروری اخراجات تک کم کر دیئے ہیں۔ اس کے باوجود ادھار یا پارٹ ٹائم جابز کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ بچوں کو اچھے اسکولوں سے نکال کر درمیانے درجے کے اسکولوں میں داخل کرانے کے باوجود بجلی کا بل ادا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ واقعی خان صاحب نے وزیر اعظم بن کر عوام کی تقدیر بدل دی ہے ۔ اس پر شکریہ خان صاحب کہنا تو بنتا ہے۔ ہماری نسل زندگی کے اس موڑ پر ہے جنہیں ہر طرح کے حالات کے باوجود ہمیں اپنا وطن کشمیر جیسا ہی لگتا ہے۔ لیکن مسئلہ تیسری اور چوتھی جنریشن کا ہے جو اس نظام سے شدید متنفر ہورہی ہے۔ باہر کی دنیا میں موجود مواقع ، ترقی اور ڈسپلن انھیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ خدار ا ایسے حالات نہ پیدا کریں کہ یہ نسل وطن کی محبت سے دور نکل جائے۔ کہیں "وطن تو کشمیر "کی یہ روایت دم نہ توڑ جائے۔

مزیدخبریں