معاہدے کے امکانات روشن، طالبان کا عارضی جنگ بندی پر اتفاق

معاہدے کے امکانات روشن، طالبان کا عارضی جنگ بندی پر اتفاق


برسلز: طالبان نے افغانستان میں 7 دن کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی کرنے پر اتفاق کیا ہے جس سے امریکا کو امید ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ جلد طے پا جائے گا۔

جنگ بندی پر رضامندی کا اعلان ایک امریکی عہدیدار نے کیا جس سے ایک روز قبل ہی افغان صدر اشرف غنی نے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت میںقابل ذکر پیش رفت ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق برسلز میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس کے بعد امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان نے 7 روز کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی پر بات چیت کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب کا یہی کہنا ہے کہ افغانستان کا حل سیاسی سمجھوتہ ہے جو اگر واحد حل نہیں تو سب سے بہترین ضرور ہے، اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے اور ہم جلد اس بارے میں مزید بتائیں گے۔تاہم امریکی سیکریٹری دفاع نے یہ واضح نہیں کیا کہ عارضی جنگ بندی کا آغاز کب ہوگا جبکہ ایک طالبان عہدیدار نے اس سے ایک روز قبل کہا تھا کہ وہ جمعے سے ’پرتشدد کارروائیوں میں کمی‘ کردیں گے۔

مارک ایسپر کا مزید کہنا تھا کہ ہماری نظر میں ابھی 7 روز کافی ہیں لیکن ان تمام باتوں پر عمل کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر حالات پر منحصر ہے، میں ایک بار پھر کہوں گا کہ حالات پر منحصر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے اگر ہم آگے بڑھے تو جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے یہ ایک مسلسل جانچنے کا عمل ہوگا۔دوسری جانب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں کے دوران بات چیت میں حقیقی پیش رفت ہوئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم اس سطح پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں ہم نہ صرف کاغذوں پر بلکہ عملی طور پر پرتشدد کارروائیوں میں واضح کمی دیکھ سکیں۔مائیک پومپیو نے کہا کہ اگر ہم وہاں تک پہنچ گئے اور کچھ عرصے تک ہی صورتحال برقرار رکھ سکے تو ہم ایک حقیقی اور سنجیدہ بات چیت کا آغاز کرسکیں گے جس میں آگے بڑھنے کا راستہ اور ایک حقیقی مفاہمت کی تلاش میں تمام افغان (فریقین) ایک میز پر ہوں گے۔

ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی اور طالبان عہدیداروں کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدے کی مشروط منظوری دے دی ہے تا کہ وہ امرکی افواج کا انخلا شروع کرسکیں۔

یاد رہے کہ ستمبر 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد امریکا کی جانب سے افغانستان پر چڑھائی کردی گئی تھی جس کے 18 برس گزر جانے کے بعد اب بھی جنگ زدہ ملک میں 12 سے 13 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔