اسلام آباد : سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے برطرف کیے جانے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ادارے برے نہیں ہوتے، لوگ برے ہوتے ہیں۔شوکت عزیز صدیقی نے فیض حمید اور دیگر افسران کو پارٹی بنانے کی استدعا کردی جس پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے برطرف کیے جانے والے جج شوکت صدیقی کے مقدمے کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس عرفان سعادت بینچ میں شامل ہیں۔ مقدمے کی سماعت براہ راست نشر کی گئی۔
چیف جسٹس نے پہلا سوال شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان سے پوچھا کہ آخری دفعہ یہ کیس کب سنا گیا اور کن ججز نے سنا؟
چیف جسٹس نے کہا وہ ایک بار پھر آغاز سے اس مقدمے کو سننا چاہیں گے، جس پر حامد خان نے اس مقدمے کی تاریخ پڑھ کر بتانا شروع کر دی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے چند خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی کا بڑا رتبہ ہے ۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا، پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے، باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، میں نے بنچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے حامد خان سے یہ بھی پوچھا کہ انھیں موجودہ بینچ کے کسی جج پر اعتراض تو نہیں ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ انھیں کسی جج پر اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب سپریم کورٹ میں جمہوریت آ چکی ہے اور بینچز قانون کے مطابق جمہوری انداز میں بنتے ہیں۔ ’اب سپریم کورٹ میں جمہوریت آ چکی ہے۔‘
حامد خان نے اس پر کہا کہ یہ اچھا ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مگر اس وقت ملک میں جمہوریت مشکل میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم اس کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے شوکت صدیقی کی راولپنڈی بار کے سامنے کی جانے والی تقریر کا سکرپٹ پڑھ کر سنایا جس میں آئی ایس آئی پر کچھ الزامات عائد کیے گئے تھے۔ شوکت صدیقی کی طرف سے شوکاز نوٹس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کا بھی نام لیا گیا تھا کہ انھوں نے انھیں من پسند فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی نے جن افسران پر الزام لگائے ہیں انہیں بغیر سنے ان کے خلاف کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتے۔ آپ ان افراد کو پارٹی بنائیں یا نہ بنائیں مگر بغیر کسی کو نوٹس دیے ہم کارروائی نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ انہیں پارٹی نہیں بنانا چاہتے ہیں تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کا بظاہر درست تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’فیشن چل گیا ہے، اداروں کو بدنام کرنے کا۔ حامد خان نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ان افراد کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ وقت گزر گیا ہے اور اب بتائیں کہ اب پارٹی بناتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا جیسے آپ کہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کا کیس نہیں لڑ سکتے یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ اگر وہ افراد سامنے آنا چاہتے تو خوش آمدید کہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ججز پر اعتراض ہو سکتا ہے مگر ساری عدلیہ کو برا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس طرح تو پھر سارے ججز لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم شخصیات کو برا بھلا نہیں کہتے، ادارے کو برا بھلا کہہ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جرمنی میں فاشزم کے زمانے میں بھی سیکرٹ پولیس ہوتی تھی۔ ادارے فاشزم میں بھی کام کرتے ہیں اور عام حالات میں بھی۔
چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ یا آپ ایسے تمام افراد کے نام اپنی درخواستوں اور جوابات سے نکال دیں اور کیس کو صرف قانونی نکات پر لڑیں یا پھر سب کو پارٹی بنائیں۔ شوکت صدیقی کے دیگر مقدمات میں وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بھی فوج کے افسران کو پارٹی بنانے کی درخواست کی ہے۔