یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انسانی معاشرہ صرف انصاف کی بنیاد پرہی قائم رہ سکتا ہے۔ جو قوم بھی اس بنیادی حقیقت سے روگردانی کرتی ہے، جلد یا بدیر تاریخ کے اوراق سے اسکا نام، مقام اور وجودمحو ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر بروقت تدارک نہ کیا جائے تو نا انصافی کسی بھی سماج کے لئے ایک ایسے ناسور کی مانند ثابت ہوتی ہے جو اسکی تباہی و بربادی میں کلیدی کردار اداکرسکتی ہے۔جن معاشروں میں انصاف ناپید ہوجاتا ہے وہ معاشرے زوال کے ایک ایسے گرداب میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے پھر رہائی پاناانکے لئے ممکن نہیں رہتا۔جب کسی انسانی معاشرے میں ناانصافی کا دور دورہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس معاشرے کے کمزورو لاچار افراد طاقتور اشخاص یا اداروں کے زیادتیوں اور چیرہ دستیوں کا شکار بنتے ہیں۔رفتہ رفتہ اس منحوس چکر کا دائرہ کاروسیع ہوتا چلا جاتا ہے اوریوں خاص و عام،سبھی ناانصافی کی چکی کے دو پاٹوں میں پس کر ریزہ ریزہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے ہرگز کوئی فرق نہیں پڑتا کہ متاثرہ شخص عام آدمی ہے،کوئی وکیل، ہے یا پھر کوئی پولیس اہلکار، بیوروکریٹ ہے یا پھر کسی طاقتور ادارے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص،ناانصافی کا منحوس چکر جب چلتا ہے تو سبھی ناانصافی کی بھٹی میں آتش ِ سوزاں کا مزہ چکھنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مستحکم معاشروں کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھ لیں۔ یہ معاشرے اسی صورت میں کامیاب انسانی معاشروں کا روپ دھار سکے جب انہوں نے اپنے اندر موجود ناانصافی کے سیلاب کے سامنے بندھ باندھا اور انصاف کے قیام سے اپنے معاشروں میں امن لائے۔ آج وہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول میں ان معاشروں میں موجود حکومتوں اور قانون و انصاف سے متعلقہ اداروں نے انصاف کے قیام کو اپنی اولین ترجیح رکھا۔ تاہم بد قسمتی سے آزادی کے بعد 70 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم من حیث القوم معاشرتی و سماجی انصاف کو نہیں پاسکے۔نظام ِقانون و انصاف آج بھی طاقتور کے گھر کی باندی اور غریب و لاچار پر اپنے تمام تر قہر و جبر کے ساتھ آشکار ہے۔وجہ شاید بہت
سادہ سی ہے۔اقتدار میں موجود ملک کی طاقتور اشرافیہ وسائل کے تمام سوتوں پر قابض ہے اور اس اقتدار شرکت بلاغیرے کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہتی ہے۔اس مقصد کے حصول میں اکثرو بیشتر ریاستی ادارے، بالخصوص پولیس اس کے ہاتھ میں ایک ایسی کٹھ پتلی کی مانندہے جو طاقتور لوگوں کی اشاروں پر کام کرتی ہے۔ویسے تو پولیس کامعروف نعرہ تو ہے ’پولیس کا ہے فرض مدد آپکی‘ لیکن حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے عملاً یہ نعرہ تو کچھ یوں نظر آتا ہے۔’پولیس کا ہے مقصد ٹھکائی عوام کی‘ پولیس اپنے ’ماسٹرز‘ کی خوشنودی اور آشیر بادکیلئے کسی بھی سطح پر اْتر سکتی ہے۔یہ اوپر سے اشارہ ملنے کے بعد یا پھرمٹھی گرم ہونے پر مجرم کو بے گناہ اور بے گناہ کو مجرم بنانے میں چند لمحے لگاتی ہے۔ایسے واقعات کی کمی نہیں جن میں بے گناہ ہونے کے باوجود پولیس کی جانب سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد متاثرہ افراد سالہا سال جیلوں میں سٹرتے رہے۔ ان میں سے تو کچھ انصاف ملنے کی اْمید میں جہان فانی سے ہی سے رخصت ہوگئے۔
ایسے ہی ایک کیس میں پولیس نے گھر بیٹھے ایک بے گناہ کو گرفتار کیا اور پھر بعد ازاں اسکا نام خطرناک مجرمان کی ’انتہائی مشکوک‘ فہرست میں ڈال دیاگیا۔ یوں نوجوان کیلئے اسکی زندگی جہنم بنا دی گئی۔متاثرہ نوجوان پولیس کے لئے سونے کاانڈا دینے والی ایک ایسی مرغی بن گیا جسے آئے روز اْٹھاکر اسکی جیب خالی کرانا پولیس کا محبوب مشغلہ بن گیا۔یہ کہانی ہے قصور پورہ شفیق آباد کے رہائشی محمد بابر کی ہے جو تین چھوٹے بچوں کا باپ بھی ہے بابر اپنے گھر کے گراؤنڈ فلور پر قائم ایک بیکری چلا کر اپنے اور اپنے گھر والوں کاپیٹ پالتا ہے۔۔21اکتوبر 2021میں اس کے علاقہ میں قتل کی ایک واردات ہوئی جسکا پولیس نے مقدمہ نمبر2076/2021 جس میں بابر کا نام نہیں تھا۔
پولیس نے اسے اسکے مخالفین کی ایما پر متعدد بار گرفتار کیا تاہم کسی بھی قسم کا جرم ثابت نہ کر سکی۔ بابرکے مطابق وہ ضمانت پر باہر آیا اور بیکری پر کام شرو ع کیا تاکہ باعزت طریقے سے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ تاہم اسے معلوم نہیں تھا کہ پولیس اسے ایسا نہیں کرنے دے گی۔ بابر کا کہنا ہے کہ شفیق آباد پولیس کئی روز سے اس سے پیسوں کا مطالبہ کر رہی تھی جب اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو پولیس کی بھاری نفری نے اسکے گھر پر دھاوا بول دیا اور اسے سوئے ہوئے اٹھا کر ساتھ لے گئی اور اسے کی جیب سے 20 ہزار روپے کی نقدی نکالنے کے بعد اس سے مزید 50ہزار روپے کا مطالبہ کیا جب اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اس پر ایک جھوٹے مقدمہ 1800/2022 میں جوا کرانے، اشتہاری ملزم کو پناہ دینے اور منشیات رکھنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ عدالت سے ضمانت کرانے کے بعد سیدھا ڈی آئی جی آپریشن لاہور اور ایس ایس پی آپریشن لاہور کے پاس پہنچا اور متعلقہ سب انسپکٹر اور دیگر ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف میرٹ پر تفتیش کرنے کی درخواست دی۔ تاہم اگلے ہی دن سی آئی اے پولیس نے اسکے بھائی کو بھی اُٹھا لیا اور اسکا نام ایک خفیہ ادارے کی جانب سے بنائی جانے والی فہرست میں شوٹر کے طور پر ڈال دیا گیا۔ تاہم ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کے حکم پر ہونے والی انکوائری میں وہ بے گناہ ثابت ہوا اور اس کے بھائی کو بھی رہائی ملی۔ بابر کا کہنا ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ پولیس مجھے ویسے ہی گولی مار دے۔ کوئی جرم بھی سرزد نہیں کیا۔ اسکے باوجود مجھ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ لاہور میں بڑھتے ہوئے سنگین جرائم پر قابو نہ پا سکنے کے بعد پولیس نے اپنے ہی ایک خفیہ ادارے کی جانب سے ایک ایسی مشکوک اور متنازع فہرست تیار کرائی جس میں معمولی مقدمات کا ریکارڈ رکھنے والے افراد کو بھی ’شوٹر‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب یہ افراد پولیس کے لیے جعلی مقابلوں کے لیے آسان ترین ٹارگٹ ہیں۔ جب اس ضمن میں اعلیٰ پولیس افسران سے رابطہ کیا گیا کہ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ فہر ست درست نہیں ہے۔ لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ افسران کا کہنا تھا کہ ان کے ذاتی تجربہ میں یہ بات رہی ہے کہ پولیس شہریوں کے ساتھ اس طرح کی بہت زیادتیاں کر دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بابر سمیت بہت سے بے گناہ افراد کو جن کے خلاف پولیس جھوٹے مقدمات درج چکی ہے انہیں انصاف ملے گا یا نہیں، ہنوز ایک حل طلب سوال ہے۔ ایسے میں سی آئی اے پولیس جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کرنے کے بجائے شہریوں کی پکڑ دھکڑ کر کے لوگوں کو قبضے دلوانے اور مختلف پارٹیوں کے درمیان مالی اور کاروباری معاملات حل کرانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔