کاشف انور، لاہور چیمبرآف کامرس کے نومنتخب صدر ہیں اور میرا ان سے دوستی کا دعویٰ برسوں سے بڑھ کے عشروں کاہو چکا۔ میں نے انہیں اپنی سوچ میں ا نقلابی اور رجائیت پسند بھی دیکھا ہے اور پریکٹیکل بھی۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جو انقلابی ہوتا ہے وہ ایسے خواب دیکھنے اور دکھانے شروع کر دیتا ہے جن کو وہ اپنی زندگی میں حاصل ہی کر سکتا اور جو پریکٹیکل ہوتا ہے وہ اس نام پر وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو نہیں کیا جانا چاہئے، اپنے خوابوں اور عمل میں اعتدال کی ضرورت ہے۔میراسوال تھا کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے توا س کا ایک جواب تو زندگی بھر کامرس رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی دوست اشرف مہتاب نے دیا کہ عملی طور پر ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ ہمارے خزانے میں موجود ڈالرز صرف وہ ہیں جو دوست ممالک کی طرف سے’پارک‘ کئے گئے ہیں لہذا ہمیں ادائیگیوں کے شدید عدم توازن کا سامنا ہے۔ اشرف مہتاب اس پر بھی سخت نالاں ہیں اور بہت دنوں سے بہت جذباتی تقریریں کرکے پوچھ رہے ہیں کہ عوام سے قربانیاں مانگنے والوں نے خود کتنی قربانیاں دی ہیں۔ وہ روانی کے ساتھ سیاستدانوں کے اللوں تللوں کا ہی ذکر نہیں کرتے بلکہ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کی مراعات پر بھی ایسے ایسے سوال اٹھاتے ہیں جو آن ائیر نہیں کئے جا سکتے۔
پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے پروپیگنڈے کا سب سے اچھا جواب معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ہمارے دوست اجمل شاہ دین کے پاس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا پاکستان پچھہتر برسوں میں کبھی ڈیفالٹ ہوا ہے کہ اب ہو گا۔ پاکستان دیوالیہ اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب ایٹمی دھماکے کرنے پر اقتصادی پابندیاں لگ گئی تھیں۔ وہ پاکستان کے ادائیگیاں نہ کرنے کے حوالے سے شور کے جواب میں دلچسپ دلیل دیتے ہیں کہ کیا یہ شور مچانے والے آئی ایم ایف سے زیادہ ماہر ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی قسط ہی اس وقت دی جب اس نے سب جمع تفریق کر لی کہ پاکستان اپنے قرضے واپس کر سکتا ہے یا نہیں۔ وہ ایشئن بنک کے ابھی چند روز قبل ہونے والے قرض کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیوالیہ ہونے والوں کو کوئی قرض نہیں دیتا، وہ موٹرویز کے سنگ بنیادنہیں رکھتا۔میں ان سے کہتا ہوں کہ ہم ایل سیز نہیں کھول رہے کیونکہ ہمارے پاس ڈالر ہی موجود نہیں،وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ہماری حالت اس وقت ایک تنخواہ دار شخص جیسی ہے جس کا مہینے کے آخر میں ہاتھ تنگ ہوجاتا ہے سو وہ اپنی کئی ضروریات روک لیتا ہے جیسے اسے نئی شرٹ کی ضرورت ہے تو وہ کہتا ہے کہ اگلے مہینے لے لوں گا، شرٹ نہ خریدنے کامطلب یہ نہیں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے،پاکستان کی بھی اس وقت بعینہ وہی حالت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس وقت وزارت عظمیٰ، وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ میں بہترین ٹیم موجود ہے۔ شہباز شریف کی ایڈمنسٹریشن مشہور ہے اور اسحق ڈار آئی ایم ایف کا ایک پروگرام کامیابی سے مکمل کرچکے ہیں۔ ابھی بلاول بھٹو زرداری نے عالمی برادری کے سامنے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقدمہ بہترین انداز میں جیتا ہے، دنیا اب ہمیں ڈالر دے گی اور ضرور دے گی۔
کاشف انور، اشرف مہتاب کی اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں اس وقت سرمایہ کار اور صنعتکار پریشان ہے مگر وہ اس سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے پاکستان ڈیفالٹ ہونے والا ہے تاہم وہ معاشی استحکام کو سیاسی استحکام سے جوڑتے ہیں کہ اگر موخرالذکر نہیں تو اول الذکر بھی نہیں۔ میں نے کہا، پھر عمران خان درست کہتے ہیں کہ الیکشن کروا لیں، پانچ برس کے لئے ایک حکومت آجائے اور وہی ملک کو سنبھالے تواس کا جواب یہ ہے کہ انتخابات اقتصادی مسائل کا حل نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کے سری لنکا بننے کی بات کی جارہی ہے تو ایسے میں اگر ایک نگران حکومت یہاں بٹھا لی جائے تو دنیا اس سے کیا بات کرے گی اور وہ دنیا سے کیا مدد لے سکے گی۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک جس کے پاس ضروری درآمدات کے لئے بھی پیسے نہیں تو وہ بہت سارے ارب روپے خرچ کر کے الیکشن کی عیاشی کیسے کرسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا بچنا زیادہ ضروری ہے کہ اگر پاکستان ہی نہ رہا تو کیا الیکشن سری لنکا میں جا کے کروانے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں اپنی امپورٹس کو روکنا ہوگا تاکہ ڈالر بچائے جا سکیں اور وہ جواب میں کہتے ہیں کہ آپ اس وقت خام مال اورمشینوں کے پرزے تک روک رہے ہیں۔ اگر خام مال نہ آیا جیسا اس وقت ادویات کے خام مال کی روک کی وجہ سے ادویات کے بحران کا خطرہ ہے تو آپ پراڈکٹس کیسے تیار کریں گے اور اگر آپ پراڈکٹس تیار نہیں کریں گے توکارخانوں میں ملازمتیں کیسے برقرار رہیں گی، صنعتیں حکومت کو ٹیکس کیسے دیں گی اور اگر ٹیکس نہیں دیں گے تو ملک کیسے چلے گا۔اگر آپ نے مشینوں کے پرزے روکے رکھے تو کارخانے رک جائیں گے اور ان کے رکنے کامطلب ہے کہ ملک رک جائے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کاروبار کے اوقات ریگولیٹ کئے جائیں، صبح فجر کے بعد دکانیں کھولی جائیں اور اندھیرا ہونے پر بند کر دی جائیں۔ ا س سے بجلی کی بچت ہوگی اور اس مہنگے تیل کی بھی جس سے بجلی بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں ڈالروں کی بھی۔
اب یہاں وہ مطالبہ ہے جو وہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحق ڈار سے کرتے ہیں۔ وہ اجمل شاہ دین کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کے پاس اندرون اور بیرون ملک کئی سو ارب ڈالر موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے ان ڈالروں کو کیسے نکلوانا ہے، کیسے باہر لانا ہے۔اس کے لئے چاہے ڈی ویلیو ہونے کا خوف ہو کہ حکومت اعلان کر دے کہ یکم جنوری سے ڈالر پونے دو سو روپے کا ہو گا تو بہت سارے لوگ جنہوں نے اپنے گھروں میں ڈالر چھپا رکھے ہیں وہ گھاٹے کے خوف سے لے آئیں گے یا حکومت کوئی منافع یا لالچ دے کہ ڈالر دو ہم تمہیں اس پر شاندار منافع دیں گے۔ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر ایک ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرے۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کالے دھن کو سفید کرنے کی اسی طرح بات کر رہے ہیں جیسے شاہد خاقان عباسی نے ایمنسٹی دی اور پھر عمران خان نے مگر اس ایمنسٹی سے فائدہ نہیں ہوا۔ وہ پر امید ہیں کہ اب اگر ایمنسٹی سکیم دی گئی تواس کے بھرپور نتائج مل سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دھن کالا، سفید، پیلا اور نیلا نہیں ہوتا۔ پاکستان کو اس وقت دھن کی اشد ضرورت ہے تاکہ کاروبار زندگی کو چلایا جا سکے، ڈیفالٹ ہونے کے خطرات سے بچا جا سکے اور اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ پاکستان میں کاروبار کو فروغ ملے۔لوگوں نے سونے، ڈالر اور ہاوسنگ سکیموں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اوراس سرمایہ کاری کو دوسرے شعبوں میں لانے کی ضرورت ہے۔ اسی سے عوام کو نوکریاں ملیں گی اور اسی سے حکومت کو ٹیکس۔ اسی سے ملک چلے گا، خوشحال ہو گا۔