صاحبو! جب سے دنیا میں کورونا کی وبا پھیلی ہے ، دنیا نے ایک اور ہی رنگ اختیار کر لیا۔ باہمی ملاقاتیں، سیروتفریح، بین الاقوامی سفر، ادبی وعلمی جلسے اور سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں۔ خوف اور بے یقینی کی فضا نے پورے عالم کو گھیر لیا۔ یہ سب کچھ توہوا مگر آخر خلا کب تک رہتا۔ مثل ہے کہ فطرت خلا سے نفرت کرتی ہے۔ سوحضرتِ انسان نے مجبوری اور بے بسی کے عالم میں بھی اپنے ہونے کے کئی متبادل رستے نکال لیے ۔ باقی امور تو ایک طرف علمی و ادبی سرگرمیوں ہی کو لے لیجیے کہ کس طرح زوم کے ذریعے دنیا بھر کے دانشور طویل فاصلوں کو پاٹ کر گویا یکجا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی باتیں سنتے ہیں، کانفرنسیں کرتے ہیں ، سیمی نار منعقد کرتے ہیں اور علمی و ادبی مذاکروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں باہم ایک جگہ جمع ہو کرتبادلۂ خیال کا سا لطف اور جوش و ہمہمہ تو نہیں ہوتا مگر اسے بھی بہرحال بسا غنیمت سمجھنا چاہیے اور بقول اقبال: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، کے سبق کو نہ بھولتے ہوئے اچھے دنوں کی آس رکھنی چاہیے۔
پچھلے دنوں اِسی ماہ کی چار تاریخ کو دہلی کے معروف اور ممتاز علمی و تحقیقی ادارے غالب انسٹی ٹیوٹ نے ایک دو روزہ بین الاقوامی ویبینار (Webinar) کا اہتمام کیا اور موضوع طے کیا: ’’اردو میں سفر نامہ نگاری اور سوانح نگاری‘‘۔ مجھے اس ویبینار میں نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کا شرف حاصل ہوا بلکہ افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبے کے لیے بھی قرعۂ فال میرے نام پڑا۔ اس دلچسپ مذاکرے کی صدارت ہندوستان کے معروف مؤرخ جناب پروفیسر ہربنس مکھیا نے کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر رخشندہ جلیل تھیں۔
نثری اصناف میں سفرناموں سے مجھے بڑی دلچسپی رہی ہے ۔ آج سے کم و بیش اڑتیس برس پہلے میں نے اردو کے پہلے سفرنامہ نگار یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ ’’تاریخ یوسفی یا عجائباتِ فرنگ‘‘ پاکستان سے پہلی بار اپنے مفصل مقدمے کے ساتھ شائع کیا تھا۔ اپنے کلیدی خطبے کا آغاز میں نے مسافروں یا سیّاحوں کے بارے میں بیدل اور سعدی کی بیان کردہ دو دلچسپ حکایات سے کیا۔ قارئین! یہ دلچسپ اور مختصر کہانیاں آپ بھی سن لیجیے۔ بیدل نے اپنی مثنوی ’’محیط اعظم‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک احمق دانشوروں کے رنگ میں لاف زنی کر رہا تھا کہ میں نے بارہا سمندر کا سفر کیا ہے بالکل ایسے جیسے بلبلہ پانی پر تیرتا ہے۔ میں نے تجارت کی خاطر سیکڑوں دریا اس طرح تیر کر عبور کیے ہیں جیسے کشتی ۔ میں نے ہر موج کے تھپیڑے سہے ہیں اور ہر قطرے کے ساتھ موج کی طرح لپٹا ہوں۔ میری دعوت کی ہتھیلی لاف اور ڈینگ سے خالی ہے۔ میں نے موج کی طرح دریا کے معمّوں کے در کھولے ہیں۔ مجھ سے سمندر کے بھید پوشیدہ نہیں۔ یوں سمجھ لو کہ اس نسخے میں ایک حرف بھی ایسا نہیں جو میں نے سمجھ نہ لیا ہو۔ میں ہر قطرے میں گہر کا سراغ رکھتا ہوں ۔ میں ساحل نشینوں سے بات کیا بڑھاؤںکہ وہ میرے اَسرار کی گہرائی سے ناواقف ہیں۔ سننے والوں میں سے ایک گویا ہوا: میاں! اس تمام سیر و سفر میں تم نے مچھلی تو ضرور دیکھی ہو گی۔ مچھلی جو آنکھ کی طرح پانی کے گھر میں رہتی ہے اور اس کا پیرہین ، سنا ہے، کہ دل کی طرح داغ رکھتا ہے۔ احمق مشتعل ہو گیا اور بولا لو اور سنو! میاں یہی مچھلی تو سمندر میں میری دائمی غذا رہی ہے، مچھلی کی نشانی بتانا سوائے بے وقوفی کے کیا ہے کہ ہر جاہل کو اس سے واقفیت ہے۔ میرے بیانِ سفر سے تو موتی چننے چاہئیں نہ یہ کہ ماہی کی ترکیب اور اس کی شکل و صورت پوچھی جائے۔ سائل روہانسا ہو کر بولا کہ میں واقعی مچھلی کی صورت سے ناواقف ہوں ، سو اپنے کیسۂ علم سے مجھے آگہی کی خیرات دے ۔ ہو
سکتا ہے میں تیری بتائی ہوئی نشانی کے سبب ماہی شناس بن جاؤں ۔ سیاحِ یاوہ گو بولا کہ اے ہوش مند مچھلی وہی تو ہوتی ہے جس کے اونٹ کی طرح دو بلند سینگ ہوتے ہیں۔ خلقت اس ابوالفضول کی یہ بات سن کر قہقہہ زن ہوئی اور اسے یقین ہو گیا کہ اس بے وقوف نے مچھلی کا صرف نام سنا ہے اور جس طرح اس نے مچھلی نہیں دیکھی اسی طرح اس نے اونٹ بھی نہیں دیکھا! اور اب ’’گلستان‘‘ کی ایک حکایت: ایک مکّار آدمی نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ عَلَوی ہے ، گیسو بٹے اور قافلۂ حجاج کے ساتھ شہر میں داخل ہوا ۔ ظاہر یہ کیا کہ حج سے آرہا ہے۔ بادشاہ کے حضور ایک قصیدہ پڑھا اور دعویٰ یہ کیا کہ اسی کا لکھا ہوا ہے ۔ بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ دریں اثنا بادشاہ کے ایک درباری ندیم نے کہ اُسی سال سمندری سفر سے لوٹا تھا کہا کہ میں نے اس شخص کو پہچان لیا ہے۔ باپ اس کا نصرانی تھا۔ لوگ جان گئے کہ مردِ مکّارہے ۔ اس کے پیش کردہ قصیدے کا کھوج دیوان انوری میں مل گیا ۔ بادشاہ نے اسے کوڑے مارنے اور شہر بدر کرنے کا حکم صادر کیا۔اس مرد مکار نے عرض کیا کہ اے روئے زمین کے بادشاہ ایک بات رہ گئی ہے جس کے کہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ اگر سچ نہ ہو تو جو سزا چاہے دینا ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کیا ہے وہ سخن؟ اس نے عرض کیا : اگر مسافر تیرے حضور دہی لائے تو اس میں دو پیمانے پانی کے اور ایک چمچ دہی کا ہوتا ہے۔ اگر مجھ سے سچ سننا چاہتا ہے تو سن کہ جہاں دیدہ بڑا دروغ گو ہوتا ہے ! بہرحال سفرنامے ماضی میں بھی لکھے گئے اور اب بھی لکھے جا رہے ہیں۔ جھوٹ مینوچی اور برنیر نے بھی خوب جی کھول کر بولے ، جھوٹ کہیں کہیں مستنصرتارڑ کے سے اردو کے اہم سفر نامہ نگار بھی بولتے ہیں! اپنی گفتگو میں میں نے اردو میں مختلف رنگوں اور قسموں کے سفرناموں کا ذکر کیا اور کمبل پوش کے سفرنامے کو اردو کا اہم ترین سنگ میل قرار دیا ۔ ۲۰۱۷ء میں اسی کمبل پوش کا ایک دوسرا دلچسپ سفرنامہ’’سیر ملک اودھ‘‘ کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے اور اس کی دریافت معروف تنقید نگار اور میدانِ تحقیق کی تازہ دم قلمکار ڈاکٹر نجیبہ عارف کے توسط اور تدوین سے ممکن ہوئی۔ یہ سفرنامہ بھی ۱۸۴۷ء ہی میں لکھا گیا تھا۔ میرے خیال میں معتبر، دلچسپ اور مستند سفرنامے ہوں یا نامور صاحبانِ سوانح کی زندگی کے واقعات اور اعلیٰ کارنامے ، روشنی کی یہ لکیریں تہذیب کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہیں۔
مذکورہ ویبینار کی مہمان خصوصی ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے سفرناموں سے اپنی خصوصی دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں نامور شاعر غالب کے سفرِ کلکتہ کو ایک نئے زاویۂ نگاہ سے دیکھنے میں مصروف ہیں۔ اس سفر کی روداد ان کے خطوط میں جا بجا نظر آتی ہے۔ صدر مجلس پروفیسر ہربنس مُکھیا نے اپنے صدارتی کلمات میں سفرنامے کو تاریخ کا اہم ماخذ قرار دیا۔ ان کے نزدیک شاہی درباروں کے ایما پر لکھی گئی تاریخوں کے دوش بدوش بازاروں میں ہونے والی عام لوگوں کی گفتگو بھی تاریخی حقائق کا عمدہ ماخذ ہوتی ہے اور اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ رہا مینو چی اوربرنیر کے سفرناموں میں جھوٹ کے عناصر کا معاملہ تو اس ضمن میں جھوٹ اور سچ کا تعین آسان نہیں۔ مُکھیا صاحب کے اس قول میں اس لحاظ سے تو صداقت نظر آتی ہے کہ صدیوں پہلے کی لکھی گئی تحریروں کے استناد کے تعین میں مشکلات حائل ہوتی ہیں مگر یہیں آ کے تو ایک بالغ نظر مؤرخ کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنی گہری بصیرت کو کام میں لاتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے!
’’اردو میں سفر نامہ نگاری اور سوانح نگاری ‘‘ کے زیرعنوان یہ ویبینار بڑا کامیاب رہا۔ اردو کے کئی معروف اور قابل ذکر نقادوں ، محققوں اور قلمکاروں نے اس میں شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد دوسرا سیشن صرف ’’سوانح نگاری‘‘ کے لیے مختص کیا گیا۔ ممتاز نقاد اور ناول نگار ڈاکٹر انیس اشفاق کی صدارت میں ڈاکٹر قاضی جمال حسین ، نفیس الدین فریس اور معید رشیدی نے اور بعد کے سیشن میں علی احمد فاطمی، سراج اجملی اور ڈاکٹر مشرف علی نے مقالات پیش کیے۔ ۵؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کے اجلاسوں میں ڈاکٹر خالد محمود ، ڈاکٹر خالد علوی ، ڈاکٹر ابن کنول ، ڈاکٹر مظہر احمد ، ڈاکٹر شافع قدوائی ، یحییٰ نشیط، ڈاکٹر جمیل اختر اور ڈاکٹر امتیاز احمد نے اردو سفرناموں پر مقالات پیش کیے۔ ان اجلاسوں میں پروفیسر انور پاشا ، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر یعقوب یاور اور ڈاکٹر قاضی عبید الرحمن ہاشمی جیسے معروف لکھنے والے صدور مجلس کے طور پر شریک ہوئے۔ مذکورہ ادبا اور محققین سے اس عاجز کے پرانے مراسم ہیں۔ انھیں اسکرین پر دیکھ کر اور ان میں سے بعض سے گفتگو اور احوال پرسی کر کے دل کو طمانیت اور آنکھوں کو راحت ملی ۔ آٹھ برس بعد اپنے دیرینہ کرم فرما اور معروف محقق پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ایک جھلک دیکھی اور چند عمدہ کلمات سنے۔ جواں ہمت ڈائریکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹرادریس احمد سے چار چشم ہوا ۔ خدا علم اور آگہی سے جڑے، لفظ کے ان محبوں کو تا دیر روشنی بانٹنے کی توفیق دے۔ ہمارے ایک اور فاضل نقاد پروفیسر قاضی افضال حسین کے لیے بھی حرفِ دعا کہ وہ طبیعت کی ناسازی کے باعث اس یادگار ویبینار میں شرکت نہ کر سکے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے کارپردازان ہمارے تشکر کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو کی دو ناقابل فراموش اصناف پر فکر افروز مذاکرے کا اہتمام کیا ۔ امید ہے کہ پیش کردہ مقالات کتابی صورت میں شائع ہو کر اردو ادب کے قارئین کے وسیع حلقے تک فیض رساں ہوں گے۔