شوکت ترین اور کابینہ کے وزیراعظم کا پالیسی بیان انتہائی قابلِ ستائش ہے کہ چوروں کے سوا سب سے مذاکرات، مہذب معاشرہ چوروں کو جیل میں ڈالتا ہے، مذاکرات نہیں کرتا (معاہدہ صرف قاتلوں سے ہو سکتا ہے)۔ ایسا خودمختار ملک بنائیں گے جہاں عوام اپنے فیصلے آپ کریں (یہ الگ بات کہ وہ عوام کس کو سمجھتے ہیں اور عوام کو کیا سمجھتے ہیں)۔ مزید فرمایا کہ ’’امن کے لیے دائیں بازو کے گروپوں، بلوچستان اور وزیرستان کے لوگوں سے بات کریں گے‘‘ (کیا لاپتہ افراد کے لواحقین اور دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے لواحقین کو فریق بنایا جائے گا)۔
امریکہ سے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بھارت کی انتہاپسندانہ پالیسیاں علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ امریکہ اپنا کردار ادا کرے (ہمارے ایبسولوٹلی ناٹ Absolutely not کو الٹی میٹلی یس Ultimately yes سمجھا جائے کیونکہ معید یوسف حقائق پر مبنی درخواست کر چکے ہیں)۔ تاریخ گواہ ہے حکومتی سطح پر دائیں بازو کی سرپرستی نے ملک کا ناقابل تلافی نقصان کیا۔ اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی خارجہ امور اور تعلقات میں حکومت کی پالیسی دو عملی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ تعلقات کا دعویٰ تو بائیں بازو چین اور روس کے ساتھ کرتے ہیں اور دائیں بازو امریکہ سے ایبسولوٹلی ناٹ کہنے کے باوجود خطے میں دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ نئی نسل کے لئے جاننا بہت ضروری ہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں بنیاد پرست، شدت پسند اور پُرتشدد رہی ہیں جبکہ بائیں بازو کی جماعتیں لبرل، جمہوریت پسند اور سول سوسائٹی کی نمائندہ رہی ہیں۔ اب قوم فیصلہ کرے کہ حکومت کا دائیں بازو کے ساتھ روابط بڑھانا جبکہ پارلیمانی نظام کے تحت اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کو گناہ تصور کرنا قومی ہم آہنگی کے لیے کس قدر نقصان دہ ہو گا۔
ملکی سطح پر نوازشریف کے شروع کردہ منصوبے جن پر دس فیصد کام باقی تھا، مکمل ہو رہے ہیں اور حکومت افتتاح کرنے میں بڑی عزت اور اطمینان محسوس کرتی ہے۔ چوروں کو پکڑنے والا بیانیہ اور پالیسی انتہائی خوش آئند، قابل ستائش اور لائق تحسین ہے۔ یقیناً وزیر اعظم نے اپنی کابینہ پر گہری نظر ڈالنے کے بعد یہ بیان اور پالیسی اختیار کی ہو گی۔ دائیں بازو و دیگر لوگوں سے بات کی جا سکتی ہے مگر پارلیمانی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن کی مخالفت کا چورن حکومت کی دکان میں حکومت کی نظر میں سب سے مہنگا چورن ہے۔ ’’ریاست مدینہ‘‘ والی بات پر لوگوں نے اعتبار نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان دنیا میں اب بھی سب سے سستا ملک ہے، والی بات پر کسی نے اعتبار کیا ہے کیونکہ یہ بیان مریخ کے لیے تھا، پاکستانیوں نے اسے اپنے لیے سمجھ لیا۔
چوروں کو جیل میں ڈالتے وقت پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو، چپڑاسی نے رکھنے جانے کے لائق لوگ بھی کابینہ کے وزیر اعظم کی نظر سے گزرے ہوں گے۔ جب یہ مافیاز کا نام لیتے ہیں تو یقیناً کوئی شبیہ، چہرہ، گروہ تو آنکھوں کے سامنے
ہو گا، وہ بھی جیل میں ضرور جائیں گے۔ حکومت بیک وقت کئی جنگیں لڑ رہی ہے۔ ایک طرف زرداری اور میاں صاحبان کی حکومتوں کے دوران بلکہ ق لیگ کی حکومت کے دورانیے میں مثبت کارکردگی کو مات دینے کا سامنا ہے۔ دوسری طرف عدلیہ کے سابقہ اور موجودہ معزز جج صاحبان کے متعلق آڈیوز، ویڈیوز، بیان حلفیوں کا دفاع بھی سامنے ہے۔ دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ کابینہ میں موجود اور حکومتی بنچوں میں موجود اُن لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہے جو کسی بھی وقت وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں یا کم از کم مخالفین کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی آزادیاں، فارن فنڈنگ (ممنوعہ فنڈنگ) کیس، مالم جبہ، بی آر ٹی، بلین ٹری، شہبازشریف کی حالیہ کارکردگی، نوازشریف سے خفیہ اور ظاہری قوتوں کے رابطے، جرنیلوں اور ججوں کے بیانات سے حکومت کو فرصت ملے تو مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت کی طرف توجہ دے۔ بے چاری ایک حکومت کس کس طرف دھیان دے جبکہ اپنے پانچ سالہ دور میں سے بڑے نوٹ ساڑھے تین سال میں خرچ ہو گئے۔ ابھی حکومت اٹھنے نہ پائی، سنبھلنے نہ پائی تھی کہ پیپلز پارٹی نے حلقہ نمبر 133 لاہور سے 33 ہزار سے زائد ووٹ لے کر پریشان کر دیا۔
حکومت کا ایک طرف ذہنی اور نفسیاتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنی علاوہ اور اپنے حمایتیوں کے علاوہ سب کو چور سمجھتی ہے لہٰذا جیلوں میں اتنی وسعت نہیں کہ حکومت اور حواری باہر رہیں، باقی سارا معاشرہ جیل میں بند کر دیا جائے۔ اس سے کہیں زیادہ آسان کام ہے کہ حکومت خود اپنے سیکرٹریٹ کو سب جیل قرار دے کر معاشرے میں حکومت کرے۔ دراصل قصور حکومت کا بھی نہیں آئینہ خراب ہے اور اس کیفیت و نزاع جس میں حکومت مبتلا ہے۔
رہیں قائم اوسان وقت رخصت ممکن نہیں
کہ بال و پر پریشان ہو ہی جایا کرتے ہیں