کردوں کی اکثریت ترکی، عراق، ایران اور شام میں رہتی ہے۔ آذربائیجان، آرمینیا، روس اور دیگر وسط ایشیائی ملکوں میں کرد ایک اقلیت کی صورت میں موجود ہیں، مگر ان ملکوں میں ان کا قابل ذکر سیاسی کردار نہیں ہے۔ تاریخ میں کردوں کا سب سے پہلے ذکر یونانی تاریخ دان اور کمانڈر زینوفون نے اپنی کتاب ’’انابیسس‘‘ میں کیا جو کہ اس نے چوتھی صدی قبل مسیح میں لکھی۔ اپنی کتاب میں اس نے کردوغ سرزمین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’اس خطے کے پہاڑوں پر ایک جنگلی قبیلہ رہتا ہے، جس کا تعلق خونخوار اور جنگجو نسل سے ہے جو کہ کبھی مغلوب نہیں ہوا۔ ایک موقع پر عظیم بادشاہ نے انہیں محکوم بنانے کے لئے ان کے ملک ایک لاکھ بیس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل فوج بھیجی، مگر ان میں کسی ایک جنگجو کو بھی زندہ وطن واپس آنا نصیب نہ ہوا‘‘۔
صلاح الدین ایوبی جس نے 1187ء میں جنگ حطین کی فیصلہ کن لڑائی میں صلیبی جنگوںکا خاتمہ کیا، وہ نسلاً کرد تھے۔ وہ تمام مسلمانوں بشمول عربوں، ترکوں اور کردوں کے لئے قابل احترام شخصیت ہیں۔ وہ تاریخ کی معروف ترین کرد شخصیت ہیں۔ عثمانی دور اور ترکش جمہوریہ کے قیام کے بعد بھی کردوں نے متعدد بغاوتیں کیں، اس روایت کو آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانی سلطنت کی شکست کے بعد کردوں کے علاقے غور و فکر کے بغیر برطانوی اور فرانسیسی مینڈیٹ میں تقسیم کر دیئے گئے، جس میں نسلی یا فرقہ وارانہ حقائق پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ امریکی تاریخ دان ڈیوڈ فرامکین اپنی کتاب میں اس تقسیم کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں ’’ایک امن معاہدہ جو کہ امن کو غارت کرنے کے لئے تھا‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اس خطے میں قائم نہیں ہو سکا۔
عراقی کرد اپنے ملک میں خود مختاری حاصل
کرنے والے پہلے کرد ہیں۔ انہیں 1970ء میں علاقائی خودمختاری ملی، دو عشروں بعد امریکا نے سکیورٹی کونسل سے قرار داد منظور کرا کے عراقی کردستان کو ’’نو فلائی زون‘‘ قرار دلایا۔ اس قرارداد نے کردوں کو موقع دیا کہ وہ اپنی خودمختاری کو مزید مضبوط بنا سکیں۔ 2017ء میں کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانی نے مکمل خودمختاری کے لئے ریفرنڈم کرایا، جس میں عراقی کردوں کی اکثریت نے مکمل خودمختاری کی حمایت کی، مگر عالمی برادری نے ریفرنڈم کے نتائج قبول نہ کیے کیوںکہ ان کی نظر میں ریفرنڈم کرانے کا مناسب وقت اور موقع نہیں تھا۔
ادھر شامی کرد توقع کر رہے تھے کہ 2011ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے باعث کمزور پڑنے والی اسد حکومت انہیں اپنے ’کاز‘ کے حصول کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن اب شامی کرد توقع کرتے ہیں کہ انہیں اپنی شناخت منوانے کے لئے ابھی ’’انتظار گاہ ‘‘ مزید وقت گزارنا چاہیے۔ امریکا انہیں ہر قسم کی قابل تصور سیاسی اور فوجی حمایت فراہم کر رہا ہے۔ شامی کردوں کی مضبوط ترین سیاسی جماعت ڈیمو کریٹک یونین پارٹی نے حال میں مختلف 25 کرد سیاسی گروپوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر کے ’’کردش نیشنل یونٹی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے، اسی طرح کی ایک تنظیم ’’کردش نیشنل کونسل آف شام‘‘ استنبول میں کام کر رہی ہے۔ 17نومبر کو عراقی کردستان سے شائع ہونے والے بارزانی نواز کردش اخبار نے شامی کردوں کے دونوں گروپوں کے بارے میں لکھا ’’دونوں حریف سیاسی گروپوں نے مشترکہ سیاسی ویژن کے لئے مذاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔ دونوں گروپوں کے درمیان مذاکرات کے لئے امریکا نے فعال کردار ادا کیا تھا، شام کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے ولیم روباک بھی ان مذاکرات میں شریک ہوئے اور امریکی حکومت کے لئے دونوں گروپوں کے کردار کی تعریف کی۔
عراقی کردستان کے موجودہ صدر نیچروان بارزانی نے کامیاب مذاکرات پر شامی کردوں کو مبارک دی ہے۔ ترکش میڈیا رپورٹس کے مطابق نیچروان بارزانی حکومت شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی کی سرگرمیوں کے بارے ترکی کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتی ہے۔ شاید ایسا وہ اس لیے کرتی ہے تاکہ انقرہ کے اسے حمایت حاصل رہے، شاید ایک بڑی وجہ کردستان ورکرز پارٹی کا علاقائی حکومت کے لئے درد سر بننا ہے۔
شامی کردوں کے لئے نیچروان بارزانی کی حمایت کی وجہ مستقبل کے حوالے عزائم ہو سکتے ہیں جن میں شام اور عراق کے کرد علاقوں کا انضمام اور کردش راہداری کے قیام کے لیے شام حکومت پر دباؤ ڈالنا شامل ہے جو کہ ایران سے بحیرہ روم تک طویل ہو۔
شامی اور عراقی کرد علاقوں کا انضمام ہوتا ہے یا نہیں، سب سے زیادہ گھاٹے میں ترکی رہے گا۔ عراق و شام میں کردوں کی قومی شناخت مستحکم ہونے سے ترکی کے کردوں کا قومی ’’کاز ‘‘ مزید تقویت حاصل کرے گا۔ انقرہ کو یہ احساس نہیں کہ کردش نیشنل کونسل آف شام نامی جس تنظیم کی وہ کئی سال سے سرپرستی کر رہا ہے، وہ ڈیموکریٹک یونین پارٹی آف شام کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے، جسے ترکی کردستان ورکرز پارٹی کے ذیلی تنظیم قرار دیتا ہے، جو کہ گزشتہ 35 سال سے ترکی کے خلاف لڑ رہی ہے۔ شامی کرد تنظیموں کے مابین اتفاق رائے پر ترکی نے سرکاری سطح پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا، شاید انقرہ کی نظر میں یہ اتفاق رائے خاص اہمیت کا حامل نہ ہو۔ کردوںکے مابین وسیع تر قومی اتحاد کی اگر یہ کوششیں کامیابی کے ساتھ جاری رہتی ہیں تو پھر ان کے سنگین نتائج کا ترکی کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
(بشکریہ:خلیج ٹائمز)