کوئی بندہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہ ہوا ہو ورنہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زندگی انسان کو دکھ زیادہ دیتی ہے اور خوشیاں تو بڑے نصیبوں سے ملتی ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو خوشیاں تو زندگی کے غم کدہ سے کشید کر کے نکالنی پڑتی ہیں ۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے لیکن وطن عزیز میں تو حالت مزید بدتر ہے یہاں پر تو عرصہ دراز کے بعد بھی کوئی اچھی خبر مل جائے تو غنیمت ہے ورنہ تو مہنگائی بیروز گاری کے ہاتھوں ماری قوم اور مسائل کی دلدل میں گردن تک دھنسے اس ملک میں خوش خبریاں ملیں بھی تو کیسے لیکن یقین جانیں کہ ان خبروں کے عادی ہونے کے باوجود بھی کچھ خبریں ایسی دلخراش ہوتی ہیں کہ انسان کا ذہن مائوف ہو جاتا ہے کہ یا خدایا تیری اس فانی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے ۔ دوچار دن پہلے حسب معمول آن لائن اخبار پڑھ رہے تھے کہ ایک خبر نے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے بعد مزید کوئی خبر نہیں پڑھی گئی ۔ فیصل آباد سے ایک مظلوم ، لاچار اور انتہائی بے بس باپ کی خبر تھی کہ جس نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی دو بیٹیوںکو مار کر خودکشی کر لی اور انتظامیہ کے نام خط لکھا کہ اس کے پاس گھر کے اخراجات اور بچیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیسے نہیںتھے اس لئے مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ہائے ہائے ہائے
میں اس دنیا کو اکثردیکھ کر حیران ہوتا ہوں
نہ مجھ سے بن سکا چھوٹا سا گھر دن رات روتا ہوں
خدایا تو نے کیسے یہ جہاں سارا بنا ڈالا
یہی آغار تھا میرا ، یہی انجام ہونا تھا
مجھے برباد ہونا تھا ، مجھے ناکام ہونا تھا
مجھے تقدیر نے تقدیر کا مارا بنا ڈالا
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
دنیا کے ہر انسان کی سب سے بڑی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کی زندگی بچی رہی۔ بیمار ہوتا ہے تو اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی علاج پر خرچ کر دیتا ہے کہ کسی طرح اس کی زندگی بچ جائے۔ زندگی اگر اتنی ہی ارزاں ہوتی تو اس کرہ ارض پر انسان کم اور مردے زیادہ ہوتے لیکن زندگی کتنی قیمتی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو بچانے کے لئے دوسروں کی زندگی لے لیتا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا اگر کوئی اپنی زندگی سے کھیلتا ہے تو وہ کس بیچارگی اور بے بسی کی حالت سے دو چار رہا ہو گا ۔ ہمارے گائوں دیہاتوں میں ایک کہاوت ہے کہ ننگی بھوکی بلا بھی نہ ہو یعنی اگر کوئی دشمن ہے تو خدایا اسے بھی مفلسی ایسے عذاب سے بچانا ۔
جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں تو قوم 14اگست کی خوشیاں منا رہی ہے ۔ قیام پاکستان کو 75سال ہو چکے ہیں لیکن جس مقصد کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا ہم آج تک وہ مقصد حاصل نہیں کر سکے ۔تحریک آزادی میں نعرہ تو یہی لگایا جاتا تھا کہ ’’ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘‘ لیکن آج ہم نے اس نعرہ کو ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کو بھی فراموش کر دیا ہے ورنہ تو حکم یہی ہے کہ اپنے گھر سے چالیس گھر دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے والوں کی خبر رکھا کرو کہ کوئی بھوکا تو نہیں رہ گیا اور اگر ایسا ہوا تو گناہ ہو گا تو جس معاشرے میں لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ صرف یہ کہ باپ خود کشیاں کریں بلکہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھی مار کر مریں تو اس معاشرے میں اچھی خبریں کہاں ملیں گی وہاں تو خدا معاف کریں عذاب کا انتظار کیا جاتا ہے ۔
نوجوان نسل کے لئے شاید یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ ایک زمانہ تھا کہ جب پاکستان میں بھی اچھی خبریں سننے کو مل جاتی تھی اور تفریح کے بھی وسیع مواقع میسر تھے ۔ کبھی کھیلوں کے میدانوں سے کرکٹ ، ہاکی اور اسکواش کی اچھی خبریں ملتی تھی کبھی پی ٹی وی کے تاریخ ساز ڈراموں کی شکل میں انسان چند لمحوں کے لئے زندگی کے دکھوں کو بھول کر خوشی کے کچھ پل حاصل کر لیتا تھا کبھی سیر و تفریح کے لئے گھر سے باہر نکل جاتا تھا لیکن پھر جنرل ضیاء کی شکل میں پاکستان پر کسی موت کے فرشتے کا سایہ چھا گیا کہ ہر خوشی ماند پڑنی شروع ہو گئی اور حالت یہ ہو گئی کہ انسانی خوشی اور تفریح کے جتنے مواقع تھے اور ان مواقع کے جو ذرائع تھے وہ سب ایک ایک کر کے نابود ہوتے چلے گئے اور حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ انسان گھر کے اندر اور باہر غمِ روزگار کے چکروں میں کچھ اسطرح الجھ کے رہ گیا کہ اس پاپی پیٹ کی فکر نے اسے دنیا کی ہر خوشی سے دور کر دیا اور یہ بات تو نئی نسل کے لئے بالکل اجنبی ہو گی کہ سردیوں کے موسم میں امیر امراء ہی نہیں بلکہ غریب آدمی بھی خشک میوا جات جس میں مونگ پھلی سے لے کر چلغوزے تک جی ہاں حیران نہ ہوں ہم چلغوزوں کا ہی ذکر کر رہے ہیں کہ اب سونے کے زیورات کی طرح یہ بھی غریب کیا اچھے خاصے مؒمڈل کلاس کی قوت خرید سے بھی باہر ہو چکے ہیں تو قارئین شام کے بعد گرم لحافوں میں بیٹھ کر ان سب سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن اب تو یہ باتیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں اور ان کا تذکرہ بس قصے کہانیوں میں ہی مل سکتا ہے حقیقت میں نہیں ۔ یہ بھی نہیں کہ پاکستان میں لوگ خیرات نہیں کرتے بلکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں دل کھول کر خیرات دی جاتی ہے لیکن حکومتی سطح پر عوام کے ساتھ جو تعلق ہے اس میں اعتماد کے فقدان کی وجہ سے لوگ حکومت کو زکوـۃ نہیں دیتے ورنہ تو ملک میں درجنوں کیا سینکڑوں ادارے اور ہسپتال خیرات پر چل رہے ہیں اگر عوام اور حکومت کے درمیان جو رشتہ ہے اس میں اعتماد کا عنظر شامل ہو جائے تو حکومت کے پاس زکوۃ کا پیسہ ہی اتنا اکٹھا ہو جائے گا کہ کوئی بندہ بھوکا نہیں سوئے گا اور کسی باپ کو غربت اور بے بسی کی حالت میں خود کشی نہیں کرنی پڑے گی اور نہ ہی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اولاد کو قتل کرنے کی نوبت آئے گی لیکن کاش ہماری بات حقیقت بن سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ساری ذمہ داری صرف حکومت پر ہی نہ ڈالی جائے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ۔ ہمیں اپنے اس رویے کو بھی بدلنا ہو گا کہ سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر اسلام ہمیں پڑوسی کے حقوق کی تلقین نہ کرتا اور ایک روایت کا مفہوم تو یہ ہے کہ صحابہؓ کہتے تھے کہ پڑوسی کے حقوق کے حوالے اس قدر تاکید آئی کہ ہمیں شبہ ہونے لگا کہ کہیں جائیداد میں بھی پڑوسی کا حصہ مقرر نہ ہو جائے تو جس دین میں اس حد تک پڑوسی کے حقوق ہوں تو اگر ہم خود اسلام پر عمل کرنا شروع کر دیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ کسی مسلم معاشرے میں کسی مسلمان کا پڑوسی بھوکا سوئے یا کسی مسلمان کے پڑوسی کی غربت اسے خود کشی پر مجبور کر دے تو اور کچھ نہ کریں فقط اسلام کی تعلیمات پر عمل شروع کر دیں تو معاشرے میں جو اس قسم کے المیے جنم لیتے ہیں ان کا یقینا خاتمہ ہو جائے گا ۔