قیامِ پاکستان: ولولوں، جذبوں اور قربانیوں کی داستان!

Sajid Hussain Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

اگست کا مہینہ آئے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اُن بے مثال قربانیوں کو بھول جائیں، ہم ہزاروں افراد کے تہہ تیغ ہونے کو بھول جائیں، ہم لاکھوں افراد کے اپنے گھروں سے بے دخل کیے جانے اور بے سرو سامانی کے عالم میں مہاجر بننے کو بھول جائیں، ہم بیاس اور ستلج دریاؤں کے کناروں پر بہنے والے خونِ ناحق کی ندیوں کو بھول جائیں، ہم بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں سوار اورپیدل چلنے والے لُٹے پُٹے قافلوں کو بھول جائیں ہم ریل گاڑیوں کے ڈبوں کے اندر اور چھتوں اور دروازوں کے ساتھ لٹکے ہوئے کٹے پھٹے اور زخموں سے چُور بے حال مسافروں کو بھول جائیں، ہم 74 سال قبل کے اِن دل دوز مناظر کو کیسے بھول جائیں جن کی جھلکیاں کبھی کبھار ہمیں اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کی سکرینوں پر نظر آجاتی ہیں۔یقینا ہم ان مناظر کو نہیں بھول سکتے کہ ان کا تعلق اُس بے مثال جدوجہد سے ہے جو برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے لیے ایک الگ خطِ ارض حاصل کرنے کے لیے کی۔ یہ جدوجہد بلا شبہ عدیم المثال تھی۔ اس میں بڑے، بوڑھے، بچے، جوان اور مرد وزن سبھی شامل تھے۔ یہ اسی عدیم المثال جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت دُنیا کے نقشے پر اُبھری۔۔۔  14گست 1947 کو برصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے الگ آزاد مملکت کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس کی مثال قوموں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یقینا یہ منشاء الٰہی تھا، یہ امر ربی تھا، یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم تھا اور اُس کے پیارے حبیب ﷺ کی نظرِ کرم تھی کہ برصغیر جنوبی ایشیا میں جہاں مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک حکمران رہے تھے اور جہاں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن اعلیٰ اخلاقی اقدار، مذہبی آزادی، وسعت نظری اور عدل و انصاف کی شاندار روایات قائم کی تھیں اور تعمیرو ترقی اور خوشحالی کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے وہاں اُن کا اقتدار ختم ہوا تو انہیں انتہائی بے چارگی، بے بسی اور بے کسی کے ساتھ غلامی کے شب و روز اس انداز سے بسر کرنا پڑے کہ اُن کے لیے اپنے قومی وجود کے تحفظ اور ملی تشخص کو برقرار رکھنا ہی مشکل نہیں ہو گیا تھا بلکہ اُن کا دین، اُن کا مذہب اور اُن کی تہذیب و ثقافت بھی ستم کا نشانہ بننے لگے تھے۔ اور اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا کہ وہ برصغیر جنوبی ایشیا کے جن خطوں میں اکثریت میں تھے ان خطوں کو ملا کر اپنے لیے ایک آزاد مملکت کا مطالبہ کریں۔
یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم تھا کہ اُس نے برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو انتہائی زوال اور انحطاط کے دور میں علامہ ڈاکٹر سر اقبال مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسے صاحبِ بصیرت اور صاحبِ درد رہنما عطا کیے جو قوم کی ڈگمگاتی کشتی کو کنارے پر لانے کے لیے ناخُدا بن کر سامنے آئے۔ اقبال جو کہ مفکر تھے، جو ایک شاعر تھے جو دیدہِ بینا کے مالک تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا پیغام مسلسل دے رہے تھے اور برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کے بارے میں 
سخت فکر مند رہتے تھے انہوں نے دسمبر 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے جُداگانہ قومی وجود کو بنیاد بناتے ہوئے اُن کے لیے الگ ملک کا مطالبہ پیش کر دیا۔ علامہ اقبال ؒ کے خطبہ الہ آباد کو سامنے آئے دس سال ہی گزرے تھے کہ 23 مارچ 1940 کو برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے میرِ کارواں محمد علی جناحؒ کی قیادت میں منٹو پارک لاہور (موجودہ اقبال پارک) میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور کر کے ایک الگ آزاد مملکت کے حصول کو باضابطہ طور پر اپنا قومی نصب العین قرار دے دیا۔ یہ میرِ کارواں کی پکار تھی، یہ منزل کے تعین کا یقین تھا، یہ منزلِ مقصود کو پانے کی تڑپ تھی، یہ ایثار، قربانی اور عزمِ راسخ کا اظہار تھا، یہ عزم و یقین اور قوتِ ایمانی کا اعجاز تھا کہ انگریز حکمرانوں کی شاطرانہ اور منافقانہ چالیں اور ہندو اکثریت کی مخالفانہ سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا الگ مملکت کا مطالبہ زور پکڑتا گیا یہاں تک کہ 1945کے آخر میں صوبائی اسمبلیوں اور 1946کے شروع میں ہندوستان کی مرکزی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے۔ان انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے  ایک الگ مملکت کے نعرے کی بنیاد پر حصہ لیا اور اسے مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستوں پر عدیم الامثال کامیابی حاصل ہوئی۔اس طرح یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی کہ مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا مطالبہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز ہے۔ 
اسی سال اپریل 1946میں مسلم لیگ کے دستور ساز اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کا آل انڈیا کنونشن قائد اعظم کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہوا۔ جس میں پورے ہندوستان سے مسلم لیگ کے منتخب اراکین اسمبلی، اہم لیڈروں اور مسلم لیگ صوبائی پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اس کنونشن میں متحدہ بنگال کے وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے اہم بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی نے ایک قرارداد پیش کی جسے قرارداد دہلی کہا جاتا ہے۔یہ قرارداد بڑی مکمل جامع تھی اور اس میں متوقع پاکستان کے جغرافیائی اور نظریاتی خدوخال بڑے واضح اور غیر مبہم تھے۔ اس میں کھل کر کہا گیا کہ بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان بلکہ آسام کا صوبہ بھی متوقع پاکستان میں شامل ہوگا اور وہ علاقے بھی پاکستان میں شامل ہونگے جن کی سرحدیں متوقع پاکستان سے ملحق ہیں اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔اس قرارداد میں پاکستان میں جس نظام کو نافذ کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی وہ اسلامی نظام تھا۔ 
آل انڈیا مسلم لیگ کی 1945 اور 1946کے عام انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی کنونشن کے بعد مسلم لیگ کی  قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کو مزید تقویت اور جوش و جذبہ ملا۔ اس کے ساتھ ہندوستان بھر میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ ہر طرف گھونجنے لگا اور یہ نعرہ ہر سمت سنائی دینے لگا کہ "بٹ کر رہے گا ہندوستان،بن کر رہے گا پاکستان "۔ اب ہندوستان میں انگریز حکمرانوں اور اکثریتی آبادی ہندووں کے لیے   اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کے قیام کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کریں چنانچہ 3جون 1947 کو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کے منصوبے اور دو آزاد مملکتوں بھارت اور پاکستان کے منصہ شہود پر آنے کا اعلان کر دیا۔ بالآخر  14اگست  1947 کی وہ مبارک گھڑی آ گئی جب برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا سور ج ایک نئی آزاد مملکت کے قیام کی صورت میں طلوع ہوا۔
یہاں یہ کہنا کوئی ایسا غلط نہیں ہوگا کہ برصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا قیام یقینا منشا ربانی اور نبی پاکﷺ کی نظر کرم کا نتیجہ تھا۔یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں تھا کہ 3جون 1947کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے صرف اتنا ہی کہا کہ ہندوستان میں انتقالِ اقتدار 15 اگست تک کر دیا جائے گا۔ اُس وقت 14 اگست کی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ 14اور 15 اگست 1947 کی درمیانی رات لیلۃ القدر ہو گی جو برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی آرزؤں اور تمناؤں کی تکمیل کی مبارک ساعت بنے گی۔ یقینا یہ منشائے ربانی تھا کہ یہ خطہِ ارض جو اُس کے نام پر حاصل کیا جا رہا تھا اُس کا قیام لیلۃ القدر کی مبارک ساعتوں میں عمل میں آیا۔