امروز 14 اگست انگریز سے آزادی کے دن کا جشن ہے جبکہ انگریز نے مغلوں سے آزادی دلائی تھی اور ہٹلر نے انگریز سے مگر غور کریں انگریز کے 90 سالہ اقتدار میں جو انفرانسٹرکچر، ہسپتال، تعلیمی ادارے، سڑکیں، نہری نظام، عدالتی نظام، قانون، ادارے اور ایسی زبردست اصلاحات ہوئیں کہ اس کے بعد بھارت اور پاکستان نے خرابی کی ہو گی۔کوئی بہتری کہیں کسی جگہ نظر نہ آئی۔ ”بہرحال آزادی مل گئی“۔ عوام اور سیاستدانوں کی جہد مسلسل نے 15-14 اگست دکھا دیئے مگر یہ دو دن کشمیر کی غلامی کا کرب ناک طوق بن گئے جبکہ اپنی آزادی ہمارے سامنے ہے۔ گورے نے بھگت سنگھ اور ہم نے گریٹ بھٹو کو سولی چڑھا دیا۔ جنرل ڈائر کی گولی محکوموں پر ٹارگٹ کے بغیر تھی جبکہ ہم پر اپنوں نے بھی گولی چلائی حد یہ ہے کہ لیاقت علی خان، محترمہ بی بی شہید اور بھٹو خاندان گڑھی خدا بخش میں ٹارگٹ بنا کر پہنچا دیئے گئے۔ کوڑے، قلعے، قیدیں، جلا وطنیاں، وزرائے اعظم کی عدالت سے نااہلیاں، گورے کے دور کا قصہ تو نہیں ہیں، اپنے لوگوں کی حب الوطنی کی تاریخ ہے۔ 14 اگست تو بہرحال منانا ہے گو کہ اب تہوار بھی عوام کے نہیں رہے بلکہ بیورو کریسی اور اداروں کے بن گئے ہیں۔ ہمارے ایک دوست گوجرانوالہ سے تھے ملک معصوم (مرحوم) ان تکیہ کلام میرے آقا تھا۔ ہر ایک کو میرے آقا کہہ کر پکارتے۔ لوگوں نے ان کا نام ہی میرے آقا رکھ دیا۔ ایک دن میرے پاس آئے اورایک رات قیام کیا۔ میرا بیٹا امیر حمزہ آصف سینئر ڈائریکٹر(Discover Pakistan) کو میں پیار سے مہاتما اور کبھی پرنس یا میرو کہتا ہوں، ان دنوں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اب ملک صاحب کو میں نے دو چار مرتبہ میرے آقا کہہ کر پکارا تو میرے بیٹے تیسری جماعت کے طالب علم نے کہا کہ بابا آپ کو تو میں نے آقا صرف رسول اللہ ﷺکو کہتے سنا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ میرے آقا صرف رسول اللہؐ ہیں۔ پھر ان کو آقا کیوں کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا بیٹا ان کا تخلص ہے میرے آقا۔ اللہ گواہ ہے میرے بیٹے نے مجھے کہا کہ آپ ان کو ملک صاحب کہہ لیں ان کانام پکاریں لیکن آپ آقا صرف رسول اللہ ﷺ کو ہی کہا کریں اس سے پہلے اور اس کے بعد میرے آقا کریم پر میرے باپ آل اولاد قربان میرے آقاہی ہیں۔
اگلے روز جناب حامد خان، جناب سردار لطیف کھوسہ، سپریم کورٹ بار کے صدارتی امیدوار، گوجرانوالہ سے جناب محمد سلیمان کھوکھر، میاں محمد افضل، ملک شکیل الرحمن، وکلاء صاحبان جو سیکرٹری شپ کے امیدوار بھی ہیں سپریم کورٹ بار کے انتخابات کے سلسلے میں تقریب میں شامل تھے۔ حامد خان صاحب نے عدالتی اصلاحات اور ججز کے رویے کے حوالے سے بات کی جبکہ سردار لطیف کھوسہ نے واشگاف الفاظ میں وکلاء کو مخاطب کر کے کہا کہ ججوں کی مائی لارڈ مت کہا کریں لارڈ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عزت نہ کی جائے عزت کے اور بہت سے الفاظ ہیں۔ Your Honor, Sir وغیرہ مگر خدارا مائی لارڈ یا لارڈ شپ نہ کہا کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات میرے دل کو بہت لگی۔ موجودہ حکومت گورنر ہاؤس کی دیوار پر ہتھوڑا مار کر نیا پاکستان بنانے چلی تھی۔ اس کو ہائی کورٹ کی بلڈنگ نظر نہیں آئی۔ اگر بلڈنگ عمارت ہی غلامی کی علامتیں ہیں تو جی او آر، ہائی کورٹ، جی پی او کونسے نیئر علی دادا نے بنائے تھے۔ عمارت نہیں آزاد ی تو اس کے اندر عہدیدار کے کام کی نوعیت اور طریقے کا نام ہے۔ اگر عدلیہ آزاد ہے، گورنر ہاؤس عوام کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے جی او آر میں براجمان ”گورے“ عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ عوام کے دکھوں کا ازالہ کرتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ ورنہ وہ غلامی کے دور میں تعینات ہونے والے افسران کے خاک پا بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ عام لوگوں میں انصاف کرتے تھے۔ لوگوں کے دکھ درد کا خیال رکھتے۔ پنجاب اسمبلی قانون سازی کرتی تھی۔ عوام کے لیے قانون سازی نہ کہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے قانون سازی۔ ادارے عوام کے لیے تھے عوام اداروں کی چاکری کے لیے نہیں تھی۔ محض عمارت کی دیوار پر ہتھوڑا چلا کر آزادی کا اعلان رنگ بازی اوربدترین ڈرامہ تھا۔ ان عمارتوں کے اندر انگریز کی غلامی کے دور میں عوامی فلاح وبہبود اور انصاف رسانی کے کام اور اقدامات ہوتے تھے۔ آج ان عمارتوں عوام دشمن حاکم بنے بیٹھے ہیں اور ہم یوم آزادی منا رہے ہیں۔
ایک اور اہم بات کہ صادق اور امین میرے آقاؐ کا بعثت نبوت سے پہلے ہی لقب تھا۔ دنیا میں یہ لقب صرف آقا کریم ؐ کا ہے۔ صادق اور امین کوئی دیانت دار ہو جتنا بڑا مرضی آدمی ہو مگر لقب اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ سرکار کے لیے مخصوص کردہ لقب کسی طور بھی کسی شخص کو نہیں دیا جا سکتا لہٰذا عدلیہ، پارلیمنٹ اور سیاستدانوں و میڈیا سے درخواست ہے کہ کسی اور کے لیے یہ لقب استعمال نہ ہو۔ جس طرح کسی بھی آئین قانون میں الفاظ کی تشریح کی جاتی ہے، اسی طرح دین، اسلام اور آقا کی حیات طیبہ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات جیسے صحابی صرف آقا کریم ؐ کے ساتھی جو ایمان لائے اہل بیت صرف آقا کریم کے اہل خانہ اہل بیت ازواج مظہرات صرف آقا کریم کی ازواج ہی ازواج مطہرات ہیں۔ ایسے بہت سے دیگر القابات ہیں جو مخصوص ہیں ان کو کسی اور کے نام منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ، یار غار حضرت ابو بکر صدیقؓ، عثمان غنیؓ حضرت عثمان بن عفانؓ کا لقب ہے، بہت سی مثالیں ہیں۔ التماس صرف یہ ہے کہ صادق اور امین صرف میرے آقا ہیں اور لارڈ صرف ایک لارڈ شپ بھی ایک ہے لہٰذا پہلے اپنا قبلہ، اپنی شناخت اپنا ایمان درست کر لیں پھر آگے چلیں۔
سیاستدان ووٹ کو عزت دو اور عوام کا حق حکمرانی چھوڑیں۔ عوام اور سیاستدانوں نے 23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاس کی، ملک بنانے والی جماعت کی بنیاد 1906ء میں رکھی جا چکی تھی۔ 15 اگست 1947ء کو ملک حاصل کیا۔ آپ اپنے تہوار ہی واپس لے لیں بڑی بات ہو گی کہاں آپ چلے حق حکمرانی لینے۔
14 اگست ہی عوام کو لوٹا دیں۔ قوم نے ملک حاصل کیا تھا کسی ادارے نے نہیں۔ آپ اپنے تہوار ہی بازیاب کرا لیں بڑی بات ہو گی۔ یوم آزادی بھی خوف کے حصار میں منائیں یہ کہاں کی آزادی ہے۔ نیب، ایف آئی اے، سی آئی ڈی، عدالتی حکم نامے اب تو گورے یا بنیئے کے نہیں اب تو ہمارے اپنے ہیں۔ الزامات کے ساتھ گرفتار کرتا تھا گورا لاپتہ نہیں کرتا تھا۔ قطار در قطار جب تک خوشامدیوں میں کھڑے ہیں آزادی کا کچھ فائدہ نہیں اللہ کی صفات کا بندوں سے تو قع رکھنا بدترین غلامی ہے۔ اللہ کریم وطن عزیز کو قائم رکھے۔ ذمہ دار ان کو جتنی اب اس کی آزادی کی حفاظت کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔