لاہور شہر کی ٹریفک اور موجودہ حکومت پنجاب کی کارکردگی میں آپ کو حیران کن مماثلت نظر آئیگی۔ اگر آپ دونوں کو بغور دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں کی کارکردگی کو کوئی مانیٹر کرنے والا ہی نہیں ہے۔آپ لاہور شہر کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں آپ کو اس شہر کی ٹریفک سے تقریباً ہر روز واسطہ پڑتا ہو گا۔ ٹریفک اس شہر میں دن رات رواں دواں ہے لیکن آپ کو کہیں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آئیگا۔ہر چوک میں آپ کو چار پانچ ٹریفک وارڈنز نظر ضرور آئینگے لیکن ان کی ٹریفک سے بے اعتنائی بھی واضح ہوگی۔میں تو اب لاہور کو موٹر سائیکلوں کا شہر کہتا ہوں، وہ زمانے گئے جب کبھی لاہو ر کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا،البتہ کچھ عرصہ پہلے ایک بیوروکریٹ کامران لاشاری نے اسے پھولوں کا شہر بنانے کی کوشش کی تھی۔اب تو آپ لاہور شہر کی سڑکوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو ہر طرف موٹر سائیکل ہی موٹر سائیکل نظر آئینگے۔ ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم اس موٹر سائیکلوں کے سمندر کو معاشی ترقی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں دیکھیں آجکل ہمارے ملک میں بہت بڑی تعداد میں لوگ موٹر سائیکل خرید رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا وہ ملک میں گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کسی سیمینار کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔میں حیران ہوں کہ انہیں کوئی بتاتابھی نہیں کہ اپنے ملک میں موٹر سائیکلوں کی بڑھتی تعداد ماحول کی آلودگی میں نمایاں اضافہ کر رہی ہے۔ لیکن غریب اور پسماندہ ملکوں میں کس کی جرأت کہ وہ وزیراعظم کو سمجھائے۔ ان ممالک میں تو حکمرانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بس وہ ہی عقل کل ہیں۔ اب ذرا اس شہر یعنی لاہور کی ٹریفک کی بات کرتے ہیں۔لاہور کی سڑکوں پر وارڈنز کی موجودگی میں ایک ایک موٹر سائیکل پر تین تین سوا ریاں آپ کو نظر آئینگی۔ کئی ایک تو آپ کو لال بتی کے باوجود چوک کراس کرتے نظر آئینگے اور بعض تو ایک ہاتھ سے فون کو کان پر لگائے دوسرے ہاتھ سے موٹر سائیکل کا سٹیرنگ کنٹرول کرتے نظرآئینگے۔ کبھی کبھار کوئی وارڈن بھی آگے بڑھ کے ان کو روکتے ہوئے نظر آجائیگا۔ عموماً جب آپ لاہور کی کسی سڑک پر سفر کر رہے ہوں تو آپ کو کوئی نہ کوئی ایسی گاڑی ضرور نظر آ جائیگی جس کی ابنارمل حرکت کی وجہ سے سڑک کی پوری ٹریفک متاثر ہو رہی
ہوگی۔ یعنی یا تو اس کی سپیڈ باقی ٹریفک سے واضح کم ہو گی یا وہ کبھی کسی سائیڈ پر چلی جائیگی اورکبھی کسی سائیڈ پر۔جب آپ اس گاڑی کے قریب جا کر دیکھیں گے تو آپ کو گاڑی چلانے والا شخص فون پر گفتگو کرتے نظر آئیگا۔یہ نظارہ آپ کسی دن اور کسی وقت بھی لاہور کی سڑکوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے اور اس سلسلے میں باقاعدہ ڈیٹا موجود ہے کہ ٹریفک کے جان لیوا حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ دوران ڈرائیونگ ٹیلیفون کا استعمال ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ یہ ایک غیر قانونی عمل ہے اور دوسرے معصوم لوگوں کی جان لینے کا موجب بن سکتا ہے،لیکن آپ ایسا ہوتے اپنے اس شہر میں جو اپنے صوبہ کا دارالحکومت ہے روزانہ دیکھتے ہیں۔اسی شہر میں صوبہ کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعلیٰ رہتے ہیں، آئی جی پولیس، سی سی پی او اور چیف ٹریفک آفیسر رہتے ہیں،لیکن انہیں کیا پروا۔ ان کی زندگی کوئی عام آدمی کی طرح تھوڑی گزرتی ہے۔انھوں نے تو اسی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہو تو گھنٹہ گھنٹہ پہلے وائرلیس کھڑک جاتی ہیں۔ اُن کے روٹ پر عام آدمی کی ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ان کے روٹ پر ٹریفک سٹاف الرٹ کھڑا ٹریفک کو کچھ یوں رواں دواں کر رہا ہوتا ہے کہ ہر طرف قانون اور سکون نظر آتا ہے۔انہیں کیا پروا اُن لوگوں کی جن کے پیسوں سے یہ یوں شہنشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ غریب چنگ چیوں اور بسوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم آجکل تواتر سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اپنے ملک میں طاقتور کے لیے الگ قانون ہے اور غریب کے لیے الگ۔ انہیں یہ خیال نہ جانے کیوں نہیں آتا کہ اس ملک میں سرکاری عہدوں پر بیٹھے سیاستدان اور افسران سب ماضی میں بھی طاقتور تھے اور آج بھی ہیں۔ اسی لیے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس ملک کا ہر سیاستدان حکومتی عہدہ چاہتا ہے اور ہر شہری سرکاری نوکری۔ یہ سرکاری عہدوں کی کرامات ہیں کہ خانصاحب اسی شہر لاہور میں ایک جگہ سے دوسر ی جگہ جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں اور بزدار صاحب مرسیڈیزوں میں گھومتے ہیں۔لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ ہمارے وزیراعظم باتوں کے دھنی ہیں، عوام کو جب چاہیں نئے سہانے خواب دکھا دیتے ہیں۔کاش چھ مہینہ میں صرف ایک دن چیف ٹریفک آفیسر کے ساتھ عام سوزوکی گاڑی میں یا چنگ چی میں اس شہر لاہور میں عام آدمی کی طرح دو تین گھنٹے گزار لیتے۔ کم از کم اُنھیں یہ اندازہ تو ہو جاتا کہ ان کی حکمرانی میں عوام کے شب وروز کیسے گزر رہے ہیں۔یہ کوئی ڈنمارک اور ناروے کے وزیراعظم تھوڑے ہیں۔ اس ملک میں سب گفتار کے غازی ہیں۔اب ذرا حکومت پنجاب کی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پنجاب کے عوام اس گو مگو میں مبتلا ہیں کہ یہاں کوئی حکومت بھی ہے! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب میں حکومت وفاق سے چلائی جا رہی ہے۔اعظم خان پرنسپل سیکریٹری ٹو وزیراعظم اور شہزاد اکبر سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر کے احکامات سے حکومت چلائی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید پنجاب کی حکومت چلا رہے ہیں اور اب جب ان کے داماد بریال نے مسلم لیگ(ن) سے ان کی پرانی،صوبائی اسمبلی کی سیٹ ضلع سیالکوٹ سے جیتی ہے تو وہ اور زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔پنجاب میں بیوروکریسی عجیب پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ ہر آدمی خوف زدہ ہے کہ نہ جانے کب وفاق میں بھیج دیا جائے یا اسے او ایس ڈی (OSD) بنا دیا جائے۔صوبہ پنجاب میں ایک غلط روایت جو روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے،وہ ہے سینئر پوسٹوں پر جونیئر افسران کی پوسٹنگ۔ انیس گریڈ کی ڈپٹی کمشنر کی پوسٹوں پر اٹھارہ گریڈ کے افسران کو لگایا جا رہا ہے۔ ظاہر وہ جونیئر افسران اس کی تابعداری کرتے ہیں جنہوں نے اسے اپنے استحقاق سے زیادہ سے نوازا۔اسی طرح بیس (20) گریڈ کی ڈپٹی کمشنر کی پوسٹوں پر انیس (19) گریڈ کے افسران کو لگایا جا رہا ہے۔اور سب سے آخر میں جسے انگلش میں کہتے ہیں Last but not the least وہ یہ کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی موجود حکومت نے ایک غلط روایت کی ابتدا کر دی ہے جو کسی بھی وفاقی یا صوبائی قانون یا پالیسی کے تحت قابل عمل نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے وفاق کے ان سروس گروپس کے افسران کو بھی حکومت پنجاب میں اہم پوسٹوں پربٹھا دیا ہے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔مثال کے طور پر وفاقی حکومت کے فارن سروس(Foreign service) گروپ کے آفیسر کو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں پوسٹنگ دے دینا۔ اسی طرح موجودہ حکومت نے وفاقی اکاؤنٹ گروپ کے افسران کو بھی وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں اہم پوسٹوں پر بٹھا رکھا ہے۔بد قسمتی سے صوبہ پنجاب میں ترقی معکوس ہی نظر آتی ہے۔