میاں شہباز شریف کی پھرتیوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت چند دن کی مہمان ہے۔ اسی طرح میاں نواز شریف کا بیانیہ بھی چند دن کا مہمان ہے۔ حالات بھی اس طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ دفن ہونے والا ہے جس پر میاں شہباز شریف صاحب اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالنے کے لیے پرجوش نظر آرہے ہیں لیکن اس کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کا بیانیہ زندہ رہے کیونکہ اگر بیانیہ زندہ رہے گا تو تحریک انصاف کی حکومت قائم رہ سکتی ہے۔ بہرحال دونوں گھوڑے تیار کھڑے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اب کامیاب کون ہوتا ہے۔ اگر شہباز شریف کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر نوازشر یف کے بیانیہ کے مرتے ہی تحریک انصاف کی حکومت بھی اللہ کو پیار ہو جائے گی۔ ویسے بھی موجودہ حکومت نے ملکی نظام چلانے کے لیے جو طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں وہ عقل دنگ کر دینے والے ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ سیاسی نا پختگی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے وزارتیں سیاسی نابالغوں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہیں جو خود کو سیاسی رہنما کہلوانے کے شوق میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ پھر نہ صرف ان کو پوری حکومت کی ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔ تجربہ کار سیاستدان ہمیشہ سیاسی اقدار اور اخلاقیات کا ہر سطح پر خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہم عوامی نمائندے عوام کے آگے جوابدہ ہیں۔ اس لیے موجودہ حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چرب زبانی کوئی فن کوئی قابلیت نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کو فن گردانتے ہیں وہ صرف اور صرف موقع پرست اور اپنے مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ خود آمد اور بے تکی لغو باتیں کر کے اپنی قیادت کو تو خوش کیا جا سکتا ہے مگر اسے کامیابی سے تشبیہ دینا ایک عاقبت
نااندیشانہ عمل ہے۔ ایسی سوچ کے حامل لوگ نہ صرف سماج کے لیے بلکہ حکومت کے لیے بھی کسی ناسور سے کم نہیں ہوتے۔ پچھلے تین سال سے جاری بحث کہ موجودہ حکومت کے بارے میں ابھی تک کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ یہ کس کی حکومت ہے۔ یہ ان حلقوں کی حکومت ہے جن کو عوام خلائی مخلوق کے نام سے پکارتے ہیں یا پھر یہ خالصتاً تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ اس جاری بحث کو تحریک انصاف کے اندر بننے والے حکومتی نمائندوں کے گروپ ہم خیال نے اس گتھی کو بھی سلجھا دیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت تو محض ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ جب بھی ڈور کو ہلاتے ہیں تو حکومت کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ جس کا ایک نظارہ چند دن قبل دیکھنے میں آیا ہے۔ افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کی قیادت ملکی نظام حکومت اپنے دماغ اپنے ڈھنگ سے چلاتی تو یقینا آج کی صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ تحریک انصاف کے لیے اس سے بڑا اور کیا نقصان ہو سکتا ہے کہ جو لوگ تحریک انصاف کے حق میں دلائل دیتے تھکتے نہیں تھے آج وہ گالیاں دیتے نظر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب اپنی سیاسی وقعت، اہمیت کھو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے علاوہ پارٹی کے اندر ایک اور حکومتی گروپ حکومت کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ دراصل یہ سب سمجھنے کی بات ہے۔ سیاست ایک سائنس ہے اس کو سمجھنے کے لیے سیاسی شعور کی ضرورت ہے۔ اصل میں یہ سارا کیا دھرا انہی قوتوں کا ہے جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک بالواسطہ یا بلا واسطہ اقتدار پر قابض چلا آرہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے اپنے مہروں کو بدلتا رہتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی مہرا میاں نوازشریف کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو پھر اس کو ایسی عبرت ناک سزا دی جاتی ہے کہ دیگر مہرے اپنے اپنے سرکل میں رہنے میں ہی عافیت خیال کرتے ہیں جس کی مثال آج ہمارے سامنے ہے تاہم یہ ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت نے تو اپنا دماغ ہی استعمال نہیں کیا اور حکومت میں آ کر اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کرنے کے بجائے اپنی ہی شکل خراب کر لی ہے۔ فوج اور ہم ایک پیج پر ہیں کی گردان نے تحریک انصاف کی حکومت کر بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں دو سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت سے ستر فیصد آبادی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت عوا م کو کچھ ڈلیورکرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور دیگر پیپلزپارٹی جیسی وفاق کی علامت سیاسی پارٹی بھی پاور شیئرنگ کے فارمولے کے تحت اقتدار میں آتی رہی ہیں لیکن ان دونوں جماعتوں نے عوام کو اس حد تک کبھی نظر انداز نہیں کیا جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں بھی ان قوتوں کے تابع کام کرتی رہی ہیں لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ دونوں جماعتیں من و عن فیصلے ماننے سے انکاری رہی ہے۔ مصلحت کے تحت ان دونوں کے تابع کام کرتی رہی ہیں جس کے نتیجہ میں ان حلقوں کو ایک نئی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانا پڑا۔ مگر ان کے اس تجربہ نے ملک کو تباہی کے دبانے پر لا کھڑا کیا ہے اور تحریک انصاف کی تجربہ کار ٹیم نے ان حلقوں کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے پرمجبور ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے ہر سطح پر کیے جانے والے اقدامات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ تحریک اور اسٹیبلشمنٹ اب ایک پیج پر نہیں ہے۔ حکومت اور نواز شریف کا بیانیہ دونوں دم توڑنے والے ہیں۔