بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا حامل آرٹیکل 370 کی منسوخی، وادی میں انٹرنیٹ، موبائل سروس کی معطلی اور کرفیو کے نفاذ کے خلاف دائر درخواست کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صورت حال کو معمول پر آنے میں مزید وقت لگے گا۔
خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلسل نویں روز بھی کرفیو بدستور نافذ ہے جبکہ وادی کے مکینوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو ممکن بنانے اور شہریوں کی نقل و حرکت اور دیگر ذرائع پر عائد پابندی کو ختم کرنے کے لیے سماجی کارکن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل منیکا گوروسوامی کا کہنا تھا کہ عدالت کو فوری طور پر ہسپتالوں اور اسکولوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے چاہیے , ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ تمام باتیں میں نے سپریم کورٹ کو بتائی ہیں ,سپریم کورٹ کے جسٹس ارون مشرا کا کہنا تھا کہ حکومت مقبوضہ کشمیر کو جلد ازجلد معمول پر واپس لانا چاہتی ہے۔
جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ ‘صورت حال ایسی ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہورہا ہے، حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہمیں ان کو وقت دینا چاہیے، کوئی بھی ایک فیصد ذمہ داری نہیں لے سکتا نہیں چاہتا , ان کا کہنا تھا کہ ‘کل اگر کچھ غلط ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔
درخواست گزار نے استدعا کیا کہ کشمیر کے زیرحراست سیاسی قائدین کو رہا کیا جائے جنہیں مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے 300 سے زائد افراد کے ساتھ حراست میں لیا جاچکا ہے , سپریم کورٹ کی جانب سے اگلے چند روز میں اس درخواست کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیے جانے کا امکان ہے۔
اٹارنی جنرل کے-کے وینوگوپال نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہورہی ہے , عدالت کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے حکومت موقف دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘مقبوضہ جموں کشمیر کی صورت حال کا جائزہ روزانہ کی بنیاد پر لیا جارہا ہے اور بہتری کے اشارے ہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے ٹویٹر میں اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں‘پابندیوں میں مراحل کی بنیاد پر نرمی لائی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘پرامن جموں ڈویژن میں متعلقہ مقامی حکام کے جائزے کے بعد مواصلات کی بحالی معمول پر لائی جارہی ہے۔
دوسری جانب بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان کے دعووں کی کسی بھی آزاد ذرائع نے تصدیق نہیں کی کہ پابندیوں میں کسی قسم کی نرمی لائی گئی ہے جبکہ مقبوضہ وادی میں مسلسل نویں روز بھی عوام فون اور انٹرنیٹ تک رسائی سے محروم رہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کرفیو کے نفاذ کے بعد پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ جمعے کی نماز کے بعد مقبوضہ وادی میں مظاہرین اور فورسز کے درمیان تصادم ہوا تھا۔مقامی افراد نے اس احتجاج کے حوالے سے کہا تھا کہ 8 ہزار سے زائد افراد نے مظاہرہ کیا تھا جن کو منتشر کرنے کے لیے بھارتی سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس اور پیلٹ گنز فائر کیے تھے۔مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کے حوالے سے بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘مقامی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد واپسی پر شرپسند شہریوں میں مل گئے اور انہوں نے بلااشتعال قانون نافذ کرنے والی فورسز پر پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر کشیدگی پھیل گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مزاحمت کی اور امن و عامہ کو بحال رکھنے کی کوشش کی اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد جموں کشمیر میں کوئی فائر نہیں کی گئی , خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا اعلان کیا تھا اور مقبوضہ وادی میں ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس کو معطل کرکے کرفیو نافذ کردیا تھا۔