فلکیات دانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ زمین کے قریبی بلیک ہول سے عجیب و غریب شعلے نکل رہے ہیں۔ہماری کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول (جس کا نام سیجی ٹیریئس اے ہے) سے تابکاری کے اتنے طاقتور شعلے نکل رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔
سائنس دانوں کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، حالانکہ انہوں نے اس کا براہِ راست مشاہدہ کیا ہے۔ سیجی ٹیریئس اے ہمارے سورج سے 40 لاکھ گنا زیادہ وزنی ہے۔سائنس دانوں نے ایک نئے تحقیقی مقالے میں کہا ہے کہ ان شعلوں کا کہکشاں میں دور تک سفر کرنا بہت مشکل ہے۔ اس مقالے میں انہوں نے ان شعلوں کا شماریاتی ماڈل شائع کیا ہے , محققین کے مطابق رات کو ان شعلوں کے نظر آنے کا امکان ہزار میں سے تین ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بلیک ہول زیادہ فعال ہو گیا ہے، یا اس نے مختلف قسم کا مواد ہضم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری بلیک ہول کی تفہیم نامکمل ہے اور سائنس دانوں کو انہیں سمجھنے کے لیے کوئی نیا ماڈل اختیار کرنا پڑے گا۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ جب 2018 میں ایک ستارہ اس بلیک ہول کے قریب سے گزرا تو یہ شعلے اس سے نکلے تھے۔ سائنس دان اس ستارے کا مشاہدہ کر رہے تھے تاکہ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ لیکن جو انہوں نے دیکھا وہ حیران کن تھا۔
2014 میں ایک گرد آلود جسم بھی اس بلیک ہول کے پاس سے گزرا تھا۔ اُس وقت سائنس دانوں کو شعلے نظر نہیں آئے تھے، لیکن ہو سکتا ہے کہ اب تاخیر سے شعلے نکلے ہوں۔
تحقیق کاروں کو امید ہے کہ بلیک ہول کی ہیئت میں تبدیلی کے مشاہدے سے وہ اس کی طبعی حالت کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے۔