علی امین گنڈا پور کو پی ٹی آئی اور اسکی پوری ٹیم اپنی طرف سے ”ہلاکو خان“ جیسا ہیبت ناک کردار ثابت کر چکی تھی۔ مگر وہ لوگ جن کی یادداشت کمزور نہیں ان کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم جاتا تھا کہ جب ن لیگ کے دور حکومت میں پولیس ایکشن کے دوران گنڈا پور ”شہد“ کی بوتلیں اٹھائے سڑک پر بھاگ رہے تھے۔ بہر حال پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو وہ ایک دھانسو قسم کے وزیر اور پارٹی لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ تحریک عدم اعتماد سے عمران حکومت کا خاتمہ ہوا تو یوں لگا کہ گنڈا پور تلوار میان سے نکال کر میدان میں آ گئے ہیں۔ لیکن جوں جوں ان کے پوشیدہ اور ظاہری سہارے کمزور ہوتے گئے گنڈا پور کی اصلیت بھی سامنے آ گئی۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے ڈیرہ اسماعیل خان بینچ میں وہ چھ گھنٹے تک مختلف کمروں میں پناہ ڈھونڈتے رہے۔ پولیس نے پکڑا تو ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر سب کچھ فرفر بولنے لگے۔ بعض سرکاری حلقوں نے یہ بات میڈیا تک بھی پہنچا دی۔ جو جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ ان کی ایسی تصاویر بھی سامنے آئیں جن میں وہ بے چارگی اور بے بسی کی مورت بنے ہوئے تھے۔ گنڈا پور کو ضمانت تو یقینا مل ہی جائے گی مگر ان کی شخصیت کے متعلق ہیبت ناک ہونے کا جو مصنوعی تاثر دیا گیا تھا وہ اب کبھی واپس نہیں آ سکتا۔ دو نمبریاں اور جعلسازیاں بے نقاب ہو کر رہتی ہیں۔ فواد چودھری اور شہباز گل کی شناخت ہی جھوٹ اور بد کلامی اور بدزبانی ہے۔ فواد چودھری گرفتار ہوئے تو اگلے ہی روز عدالت میں رو پڑے۔ رہائی کے بعد ایک ٹی وی شو میں آئے تو دو تین دن کی قید کے متعلق سوال سن کر ہی ہچکیاں بندھ گئیں۔ شہباز گل کو تو سب نے روتے اور چیخیں مارتے سنا۔ وہ اللہ کا واسطہ دے کر سب سے معافیاں بھی مانگتے رہے۔ اعظم سواتی گرفتار ہوئے تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ آرمی چیف سمیت اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو کھلے عام دھمکیاں دینے والے عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو پکڑ کر محض چند روز تک اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور لاہور کے حوالات میں گھمایا گیا تو ساری اکڑ نکل گئی۔ ضمانت کے بعد ویڈیو پیغام میں اپنی داستان سنائی تو آواز بھرا گئی۔ مثالیں تو اور بھی ہے مگر کالم طویل ہو جائے گا۔ جیل بھرو تحریک کے دوران شاہ محمود گرفتار ہوئے تو کہنے لگے ہم سے دھوکہ ہوا ہے ہمیں سی سی پی او سے ملاقات کرانے کا کہا گیا تھا اب پتہ نہیں کہاں لے جا رہے ہیں۔ جیل پہنچے تو فوری طور بواسیر کا مریض ہونے کا دعویٰ کر کے ریلیف کی درخواست کر دی۔ ایک جنرل کے صاحبزادے اسد عمر کا یہ حال تھا کہ رضاکارانہ گرفتاری دینے کے بعد چیخیں نکل گئیں۔ اگلے ہی روز ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا سکیورٹی اداروں پر بے ہودہ الزامات لگا کر روتے رہے۔ سیاسی حالات کی خبر رکھنے والے حیران ہیں کہ ابھی ان کے ساتھ ہوا ہی کیا ہے؟ پی ٹی آئی کے ایک پیج کے دور میں جو کچھ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ہوا اس کو فی الحال ایک طرف رکھ دیں۔ سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے خلاف بے جان کیس بنا کر جیل میں ڈالا گیا ضمانت کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فائل اپنے پاس منگوا کر ایک سال تک دبائے رکھی۔ جواں سال سٹار
بیورو کریٹ احد چیمہ کو بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے تین سال تک پابند سلاسل رکھ کر زندگی کا قیمتی وقت اور کیرئیر تباہ کر دیا مگر روئے نہیں۔ مریم نواز اور فریال تالپور کو گرفتار کیا گیا، تضحیک کی گئی، سختیاں ہوئیں لیکن ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں۔ پھر کیوں نہ ایسا کہا جائے کہ مصنوعی طریقے سے بنائی جانے والی پارٹی پی ٹی آئی کی قیادت بھی جعلی ہے۔ جان کا خطرہ ہو بھی سکتا ہے لیکن اس حوالے سے جس قسم کے بے ربط بیانات عمران خان دے رہے ہیں اس سے ان کی اپنی سراسیمگی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ بلٹ پروف گاڑی تو ہے ہی اب بنی گالہ اور زمان پارک میں اپنے لیے مخصوص کمروں کو بھی بم پروف کرا لیا ہے۔ عدالتوں میں جانا ہو تو محافظوں کے حصار میں بدن پر بلٹ پروف جیکٹ اور سر پر فوڈ پانڈا کے ڈلیوری بوائز کے زیر استمال باسکٹ جیسا چوکور ڈبا جو بلٹ پروف شیلڈ سے بنا ہوا ہے عجیب وحشت کا احساس دلاتا ہے اور اتنا مضحکہ خیز لگتا ہے میڈیا پر تبصروں اور سوشل میڈیا پر میمز کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ اس تمام عمل سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ پی ٹی آئی کی بہادری کے دعوے محض اسی وقت تک تھے جب تک قانونی کارروائیوں سے پالا نہیں پڑا تھا، جیسے ہی ہلکی پھلکی موسیقی شروع ہوئی تو غبارہ پھٹ گیا۔ اب اگلا معاملہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا ہے۔ یہ بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اسی انداز میں میدان میں آ کر مقابلہ شروع کر دیا تو اس کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ اب تک تو سیاسی جماعتوں خصوصاً ن لیگ نے جس طرح کی ادھوری اور نیم دلانہ سیاست کی ہے اس نے بڑا خلا پیدا کر رکھا ہے۔ ایسا خلا زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتا اسی لیے سب نے دیکھ لیا کہ دینی اور جہادی تنظیموں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل نے انتشار کی سیاست کرنے والوں کو کھلا چیلنج دے دیا کہ اب اگر وہ سڑکوں پر آئے تو ان کا راستہ زبردستی روکا جائے گا۔ فیض باقیات اور پی ٹی آئی کی آخری پناہ گاہ ہم چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ججوں پر مشتمل بندیال کورٹ رہ گیا ہے۔ کھلی لڑائی تو شروع ہو ہی چکی ہے دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور وکلا تنظیموں میں واضح تقسیم کا فائدہ کون اٹھاتا ہے؟ پارلیمنٹ اور بندیال کورٹ تو آمنے سامنے آ ہی چکے ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں چیف جسٹس بندیال سے استعفا طلب کر رہی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں پارلیمنٹ سے کب آتا ہے؟ پھر اس مطالبے کو منوانے کے لیے اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر کون لاتا ہے۔ اب تک تو اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان نے چیف جسٹس سے استعفا لینے کے لیے عید کے بعد اسلام آباد آنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی کشمکش کے دوران چیف جسٹس نے عدالتی اصلاحات کا بل قانون بننے سے پہلے ہی اپنے ہم خیال آٹھ رکنی بینچ میں لگا کر ایک بار پھر قاعدے قانون کو روند دیا ہے۔ اس اقدام سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ چیف جسٹس بندیال، سپریم کورٹ کے سینئر اور غیر جانبدار ججوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران چیف جسٹس نے یہ تاثر دیا کہ ادارے کے اندر اختلافات ختم ہونے والے ہیں اور لوگ اس حوالے سے اچھی خبر سنیں گے۔ مگر ثابت ہے کہ سینئر ججوں نے چیف جسٹس کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا۔ سو آٹھ رکنی بینچ کی تشکیل اس امر کا واشگاف اظہار ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ کئی حلقے اس بات کو بڑے غور سے نوٹ کر رہے ہیں کہ بظاہر تو اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے اس وقت بھی ماضی سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ اقدامات کرتی جا رہی ہے اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر عدالتی محاذ پر ہونے والے یدھ کو اب تک ایک تماشائی کے طور پر ہی دیکھ رہی ہے۔ اس عمل کو ڈبل گیم کہنا شاید درست نہ ہو گا۔ ممکن ہے اب تک یہی کوشش کی جا رہی ہو کہ خود کو فاصلے پر رکھ کر معاملات سدھارنے کا راستہ نکالا جائے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حالات درست ہونے کے لیے لامحدود مدت تک انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی تو کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر کنٹرول کرنا ہو گا۔ سارا منظر نامہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اگر اب بھی سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت پی ٹی آئی کے درشنی پہلوانوں کی اصلیت سامنے آنے، اس کے تحریک چلانے کی صلاحیت مکمل طور پر آشکار ہونے، بیرون ملک موجود دو نمبر لابیسٹ فرموں کی بے کار چیخ و پکار، اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری اور عدلیہ اور وکلا برادری میں واضح تقسیم سے فائدہ اٹھا کر لڑائی جیت نہیں سکتی تو بہتر ہو گا سامان اٹھائے گھر جائے تاکہ فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لیے کوئی دوسری لیڈرشپ میدان میں آ کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکے۔ ڈنگ ٹپاؤ ”پھرتیاں“ بے معنی ہو چکیں۔ بات تو قابل افسوس ہے مگر لکھ کر رکھ لیں مسئلے کا حل مذاکرات سے نہیں نکلے گا۔
”بہادروں“ کی آخری پناہ گاہ
03:43 PM, 14 Apr, 2023