راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیہ میں سازش کا لفظ نہیں ہے۔ آرمی چیف نے مدت ملازمت میں توسیع مانگی نہ وہ لیں گے۔
تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ 2 روز پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈر کانفرنس ہوئی جس میں چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی سے آگاہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تعمیری تنقید مناسب ہے مگر افواہوں کی بنیاد پر سازشوں کے تانے بانے بننا اور کردار کشی کرنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ ’ڈیپ فیک‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کے جعلی آڈیو میسجز بنائے جا رہے ہیں تاکہ معاشرے میں افواج اور عوام کے درمیان انتشار پھیلایا جائے، جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کر سکتا وہ ہم انشاءاللہ اب بھی نہیں ہونے دیں گے، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی تھی نہ آگے کامیاب ہو گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ ہمیں سیاست میں مت گھسیٹیں۔ بہتر ہو گا ہم اپنے فیصلے قانون پر چھوڑ دیں کیونکہ قانون پر عملدرآمد سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں، آج وقت ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کر کے اداروں کو مضبوط کر سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں جو بات ہوئی وہ اعلامیہ میں شامل ہے اور اعلامیہ میں سازش کا لفظ نہیں ہے، متعلقہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کو تیار ہیں اور پاکستان کی طرف کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا تو اسے نکال دیں گے ۔
جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے 3 آپشنز دی گئی تھیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آپشنز نہیں دی گئیں بلکہ سابق وزیراعظم نے فوجی قیادت سے رابطہ کیا تھا اور اس ملاقات کے دوران 3 آپشنز پر بات ہوئی، نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
9 اپریل کی رات کو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات کی خبر جھوٹ ہے اور بہت واہیات سٹوری بی بی سی نے اس پر شائع کی، یہ لفظ استعمال کرنے پر معذرت، مگر اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہو سکتا، کوئی ایسی چیز نہیں ہوئی، ہوا ہی کچھ نہیں، کوئی وہاں پر نہیں گیا، جو بھی سیاسی معاملہ ہوا ہے، کسی لمحے میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور کوئی مداخلت نہیں ہوئی، اور اگر مداخلت کے کوئی ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائے، پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ آئینی اور پارلیمانی روایت کا حصہ ہے، اب اس حوالے سے افواہیں ختم ہو جانی چاہئیں۔
امریکہ کی جانب سے فوجی اڈے مانگے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان سے ایک انٹرویو میں اڈے دینے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’ایبسولیوٹلی ناٹ‘۔ اگر فوجی اڈے مانگے جاتے تو فوج کا بھی یہی موقف ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ فوجی اڈے مانگے ہی نہیں گئے اور کسی بھی سطح پر اس حوالے سے مطالبہ نہیں کیا گیا، لیکن اگر جیسا سابق وزیراعظم نے کہا، ویسا ہی جواب فوج کا بھی ہوتا۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے واضح جواب دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے مدت ملازمت میں توسیع مانگی نہ وہ لیں گے وہ 29 نومبر 2022 کو مستعفی ہو رہے ہیں، میرے خیال سے اب اس حوالے سے ہر طرح کی بحث کا خاتمہ ہو جانا چاہئے۔
دھمکی آمیز مراسلے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سائفر اصل میں وزارت خارجہ کی ڈومین میں ہوتے ہیں اور یہ ٹاپ سیکرٹ ڈاکیومنٹ ہوتے ہیں، سائفر جس روز آیا تو آئی ایس آئی نے اسی روز اپنا کام شروع کر دیا تھا، آئی ایس آئی بریفنگ بنیاد پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں موقف دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ڈی مارش کی بات ہے تو یہ صرف سازش پر نہیں دئیے جاتے بلکہ کئی وجوہات ہوتی ہیں اور یہ ایک ڈپلومیٹک پروسیجر ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں صاف لکھا ہے کہ غیر سفارتی زبان استعمال ہوئی اس لئے ڈی مارش کیا گیا۔
میجر جنرل بابرافتخار کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر مہم کے خلاف ادارے کام کر رہے ہیں اور کن لوگوں نے یہ مہم چلائی، ان کے محرکات تک پہنچ چکے ہیں۔ اس مہم کے پیچھے بیرون ممالک سے بھی لوگوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ پروپیگنڈا مہم غیر قانونی اور ملکی مفاد کے خلاف ہے، فوج یا سربراہ کی کردار کشی پر حکومت وقت کا بھی کام ہے، پروپیگنڈا تب آگے پھیلتا ہے جب بغیر تصدیق کے آگے شیئر کر دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج میں کسی بھی طرح کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور یہ یونیٹی آف کمانڈ کے پیٹرن پر چلتی ہے، آرمی چیف جس طرف دیکھتا ہے، فوج بھی اسی طرف دیکھتی ہے اور پاک فوج اپنی قیادت پر فخر کرتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی غیر موجودگی سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس روزان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور اس وجہ سے وہ آفس بھی نہیں آئے تھے۔